ادب کا موضوع اور ہیئت

55

ادب کی موضوعاتی اور ترکیبی تخلیق کو میں کیسے دیکھتی ہوں اور
ابلاغ کے ذرائع وقت کے ساتھ کیسے بدلے۔ اس پہ کچھ بات کروں گی ۔۔
اپنی ایک مختصر سی نظم سے آغاز کرتی ہوں جو میں نے ۱۹۹۶ میں لکھی تھی۔
آج موضوع کےا عتبار سے موزوں لگی
سخن گوئی
کار تخلیق ہے سخن گوئی
اسی سے پاتے ہیں سربستہ کئی راز نمود
وہ جو افلاک کے پردوں میں کہیں پوشیدہ
یا وسیع ارض کے سینے میں خفی ہوتے ہیں

فہم و ادراک سے معدوم عیاں ہو کے بھی
واردے حق کے یوں محجوب کبھی ہوتے ہیں
انھیں معدوم اور محجوب حوالوں کی نمو
سخن طراز کی مٹی میں کہیں ہوتی ہے۔۔

یہ نمو سینچ کے ملتی ہے آگہی کو حارت
یہ آگہی نہ ہو تو عالم میں دھرا کچھ بھی نہیں
شعور ہی سے تو ممکن ہے ہر ایک شے کا وجود
بجز دھیان کیا ہے من کی صداکچھ بھی نہیں

یہی اعجاز سخن ہے کہ ہو جاتی ہے
خیال و ہوش کی رغبت اسی طرف کے جہاں
نگاہ عام سے پوشیدہ کئی جلوے ہیں
دہر ظلمت میں آراستہ درجہ درجہ
حقیقتوں کے نہاں بے شمار جلوے ہیں

یہ سخنور ہے کہ جو اذن آگہی کے طفیل
خرد کے نور کو ظلمت سے جدا کرتا ہے
نئے ادراک کے درجوں پہ مرتعش کر کے
سکوت فکر کو اقبال عطا کرتا ہے۔

آدمی کو اس دھرتی کی نمو پکڑنے میں بہت وقت لگا۔
آج سے قریب بارہ سو برس قبل جب ایگریکلچرل ریوولوشن آیا تو یہ زرعی انقلاب
اپنے ساتھ یقینا بہت سے لوازمات لے کر آیا ۔انسان نے اپنی زندگی کو اسی کی نسبت سے ڈھالنا شروع کیا۔
جہاں فصل اگی ، اسی زمین پہ آدمی نے گھر بنائے بھی اور بسائےبھی۔
ایک مکمل نظام کی ابتدا ہوئی۔ سماج بننے لگا ۔
اور اس کے ضابطے بھی دھیرے دھیرے طے ہونے لگے۔شروع شروع میں ضابطے سخت تھے ۔
اسی طرز کی شاعری نے بھی جنم لیا۔
بندشوں میں جکڑی، نئی نویلی سجی سجائی ۔۔۔ جیسے نیا مکان ہو۔۔
ایسا مکان جس میں خود گھر والے بھی کچھ عرصہ بڑے تکلف سے رہا کرتے ہیں۔
شاعری کو موتی دانوں کی طرح جوڑا جوڑا کر کے، حسین اور قیمتی لفظوں کے تال میل سے سجایا گیا۔
دکھوں کو بھی ایسے ہی لفظوں میں سینت کے ، باندھ کے رکھا گیا۔۔
یہ سب غیر وجودی، غیر مکانی خدمت سخنور کرتے رہے اور بس اپنے پاس رکھی
محض نام کی زمین۔ جس پہ اپنا خیال تراشتے رہے۔۔
دوہڑے، غزلیں ، ماہئے، گیت ، نوحے۔۔ تین مصرعے ہوئے تو مثلث، چار ہوئے تو
مربع، پانچ ہوئے تو مخمس، چھ مصرعے ہوئے تو مسدس، سات ہوئے تو مسبع، آٹھ ہوئے تو مثمن، نو مصرعے ہوئے تو متسع، دس ہوں تو معشر۔۔۔

پھر جب اٹھارہویں صدی میں انڈسٹریل ریوولوشن آیا تو اس کے کچھ اپنے تقاضے سامنے آئے۔
زندگی کا معیار بلند ہوا ۔۔رستے بنے تو فاصلے بھی بڑھنے لگے ۔ جدائیوں کادکھ انسان کے رگ و پے میں دوڑنے لگے۔۔
فضا آلودہ ہوئی تو ساتھ ہی ساتھ دل بھی آلودہ ہونے لگے۔
مگر یہ تبدیلی اور اس کے دکھ بھی انسان جھیلتا چلا گیا اور شعر کہتا چلا گیا۔۔
اس دور تک آتے آتے شعر و سخن نے بھی اپنی فضا بدلی ۔
شاعری بھی اپنے معنی اور ہئیت کے اعتبار سے ماڈرن ہونے لگی۔
نظم ایک بدیسی دلربا کی طرح کشادہ دلی سے ہماری ثقافت ، روایت ، تاریخ و انقلاب اور
جدت پسندی کو اپنے اندر سموتی ، مسکراتی، گنگناتی رہی۔
کسی میم کی طرح ہمارے دیسی لبادے اوڑھ کر حسین سے حسین تر دکھتی رہی۔
غزل اب بھی روایتوں کی نتھ ڈالے، اصولوں کا ٹیکہ ماتھے پہ سجائے پورے ہار سنگھار کے ساتھ
کسی حسین دوشیزہ کی طرح ہمارے آنگنوں میں ٹہلتی رہی۔
ناقدین شعر و سخن کبھی غزل کے حسن و جاذبیت کے سحر سے نکل ہی نہ پائے اور
آزاد خیال نظم کوایک ناپسندیدہ بہو کی طرح بڑی مشکل سے سویکار کیا۔
اسی دور میں نثر نگاری نے اپنی گہرائی اور گیرائ کی کرامات بھی خوب دکھائیں۔ اسی زمانے میں
ادب برائے ادب۔۔۔ ادب برائے زندگی۔۔۔ جیسے تصورات نے جنم لیا
زندگی ایک نئے رخ سے دیکھی جانے لگی۔قدیم رحجانات ترک کرکے نئے موضوعات اور
تجریدی تصورات کو موضوع سخن بنایا جانے لگا۔
اردو شعرونثر کے اندر انگریزی زبان کے مختلف الفاظ جیسے ٹکٹ،اسٹامپ،کلکٹر،وارنٹ،بل،
ممبر،پینشن،اپیل، جیسے الفاظ تیزی سے جگہ بنانے لگے۔
لوگ جدید شاعری اور اسکی اہمیت سے واقف ہونے لگے۔مشکل ردیف قافیے ترک کیئے گئے ۔
جدید علوم اور سائنسی موضوعات بھی اردو ادب کا حصہ بننے لگے
بیسویں صدی کے اواخر میں اور اکیسویں صدی کی ابتدا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے جہاں
دنیا کو ایک گلوبل ولیج بنا دیا وہیں اردو ادب بھی دنیا کے دیگر زبان و ادب کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگا۔
اردو شعر و ادب نےکچھ اپنا رنگ دنیا کو عطا کیا ، اور بہت سا رنگ، ناز ، انداز دوسری زبانوں
اور ثقافتوں کے اپنائے۔
ترقی پسند اذہان نے اردو شعرو ادب کو انٹر نیٹ کی زبان میں ڈھالا اور یوں کمپیوٹر اور
موبائیل فون کی چمکتی سکرینوں پہ اردو کے شائقین یونیکوڈ میں شعر و ادب کا حظ اٹھانے لگے۔
وقت کی رفتار سپلٹ سیکنڈز میں بڑھی ۔
یہ اس دنیا کا تیسر ابڑا انقلاب ہے۔۔ ڈیجیٹل ریولوشن۔۔ دنیا اب ہماری انگلیوں کی پوروں پہ ناچنے لگی ہے
یہ ایک نئی طرز کی سر خوشی انسان کے ہاتھ آئی ہے۔آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے اس دور میں
آج کے شاعر کا عدو بھی مصنوعی ذہانت والا روبوٹ ہو سکتا ہے کیونکہ
اس ڈیجیٹل زمانے نے دلوں کی تسکین کا
یہ سامان بھی پیدا کر دیا کہ آپ چاہیں تو روبوٹک محبوب سے لو چیٹ فرما سکتے ہیں
اور ہر من چاہی بات کہہ بھی سکتے ہیں اور محبوب سے تسلی بخش اور تسکین آور جواب
حاصل کر کے اصل محبوب کی کمی بھی پوری کر سکتے ہیں ۔
یہ ڈیجیٹلائیزیشن اپنے ساتھ بے شمار چیلنجز بھی لائی ہے ۔ ہمارے ہاتھ میں چمکتی اسکرین پہ سارا زمانہ ہے
مگر اس سکرین سے آدھ انچ پیچھے کچھ بھی نہیں آج کاسب سے بڑا دکھ یہی اضطراب۔یہی سراب ہے۔
جہاں پہلے شعرو سخن کا سفر نا معلوم سے معلوم کی طرف تھا وہاں اب نا معلوم سے معلوم اور پھر سے نا معلوم یعنی ایک غیر مرئی دنیا تک کا سفر ہے۔ اس چیلنج کو سمجھنے کی ضرورت ہے بالخصوص اردو ادب کے تخلیق کاروں کو ۔ جنریشن ذی کا اٹینشن سپین بے حد کم ہو گیا ہے۔
اس کو زلف و لب و عارض و رخسار کے قصیدوں میں دلچسپی نہیں۔۔۔ اب ہمیں انتہائی سرعت کے ساتھ دقیق تصورات کی ترسیل کو سہل بنانے کے لئے ویژولز کا سہارا درکار ہے ۔
اور وہ سہارا ملے گا ڈیجیٹلائیزیشن سے ۔۔۔ اے آئی ۔۔یہ ویسا ہی موڑ ہے جہاں سولہویں صدی میں رینیساں دور میں سر فلپ سڈنی کی اپولوجی فار پویٹری لکھنا پڑی۔
یوں لگتا ہے کہ ویسا ہی دفاع سخن آج ایک بار پھر سے لکھنے کی ضرورت درپیش ہے۔ جس میں اس بات کی وضاحت کی جائے کہ کیوں اردو کے شعر و ادب کو آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے ایلگوردھم میں ڈھالا جا نا ضروری ہے۔
آج دنیا بھر کی بڑی زبانوں میں ادب کی تخلیق کے انداز بدل چکے ہیں۔آپ کہانی کو اپنے من چاہے رستے پہ لے جا کر من چاہے انجام پہ ختم کر سکتے ہیں۔ دنیا کے مختلف حصوں میں بیٹھے لوگ کولیبوریشن یا اشتراکی تخلیق کے تئیں ایک ہی کہانی کی ہزار جہتیں ترتیب دے سکتے ہیں۔ ایسے میں اردو زبان والوں کو سوچنا یہ ہے کہ
کیا یہ ڈیجیٹل ہونے کا خوف بھی ویسا ہی خوف نہیںجیسا کہ کبھی پرنٹ کتاب کا تھا؟ آدمی نے اسے قبول کیا۔ تو اس کے ثمرات پائے۔
اور اب ہم اس خوف میں جکڑے ہیں کہ کاغذ کی خوشبو چھن گئی تو جانے کیا لطف زندگی سے ناپید ہو جائے گا۔ ڈیجیٹل کتاب بینی کو بالخصوص اردو والوں کے یہاں ابھی تک رضامندی ہی نصیب نہیں ہو پا رہی حالانکہ اب کتاب پی ڈی ایف کی صورت میں زیادہ لوگوں تک پہنچ بھی رہی ہے اور پڑھی بھی جا رہی ہے۔ جبکہ بحث اب اس سے آگے بڑھنی چاہئے کہ جہاں اردو زبان کے لئے ایک مکمل الیکٹرانک انفرا سٹرکچر موجو د ہو جہاں حرف سے لفظ اور لفظ سے جملے بننے اور اس کی ترکیب اور پھر تخلیقی تاثر پیدا کرتی زباندانی تک بات جا پہنچے
اگر اردو زبان ڈیجیٹل ڈائیالیکٹ کی بحث کے ضمرے میں نہیں آتی تو کہیں یہ ہماری پست خیالی کی دلیل تو نہیں ؟
ڈیجیٹل لینڈ سکیپ میں کہ جب تک وہ وقت آئے گا کہ اے آئی ایک خود مختار انداز میں تخلیق کے قابل ہو جائے گی تو ایسا نہ ہو کہ ہم ابھی اپنی زبان کو محفوظ کرنے ہی کی فکر میں لگے ہوں۔اردو زبان کے تخلیق کاروں کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے۔

تحریر ۔۔نبراس سہیل

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.