ادب محض الفاظ کا ہنر نہیں، یہ ایک تہذیبی شعور، اخلاقی فہم اور فکری آزادی کا نام ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کا ادبی منظرنامہ بہت سی الجھنوں کا شکار ہے، اور ان الجھنوں میں سب سے خطرناک وہ درپردہ استحصال ہے جس کا شکار نووارد خواتین تخلیق کار، خصوصاً نوجوان لڑکیاں ہو رہی ہیں۔
ادب میں آنے والی بچیاں اپنے لفظ، جذبے اور خوابوں کے ساتھ اس فکری دنیا کا حصہ بنتی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ انہیں سنا جائے، سمجھا جائے، اور ان کی تخلیقی آواز کو عزت دی جائے۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ان کی یہ معصوم امیدیں خودساختہ “استادوں”، “سرپرستوں”، یا “ادبی شخصیات” کے ہاتھوں مجروح ہو جاتی ہیں۔ لفظوں کی محفلیں کسی کے ذاتی مفاد، جذباتی بلیک میلنگ، یا نام نہاد راہنمائی کی آڑ میں استحصال کی منڈی بن جاتی ہیں۔
یہ “ادبی دھندہ” اس قدر چالاکی سے ہوتا ہے کہ بچیاں اسے ابتدا میں ادب کا حصہ ہی سمجھ بیٹھتی ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ “ادبی دنیا میں رہنا ہے تو خاموش رہنا سیکھو”۔ ان کے اعتماد کو دھیرے دھیرے توڑا جاتا ہے، کبھی تعریف کے جھانسے میں، کبھی “مشورے” کی آڑ میں، اور کبھی “ادبی رشتے” کے نام پر۔
بدقسمتی سے بہت سی تنظیمیں اور مشاعرے اس ماحول کو غیر محسوس طریقے سے پروان چڑھاتے ہیں، جہاں کردار سے زیادہ تعلق، اور تخلیق سے زیادہ تابع داری دیکھی جاتی ہے۔ اور جو لڑکیاں انکار کرتی ہیں، ان کے راستے بند کر دیے جاتے ہیں، انہیں “بدتمیز”، “انا پرست” یا “غیر ادبی” قرار دے دیا جاتا ہے۔
یہ وقت ہے کہ ہم کھل کر بات کریں۔ ہر تخلیق کار کو یہ حق ہے کہ وہ محفوظ ماحول میں اپنی تخلیق پیش کرے۔ اور ہر استاد، سینئر یا منتظم کو یہ سمجھنا چاہیے کہ رہنمائی کا مطلب صرف تخلیقی تربیت ہے، نہ کہ ذاتی حدود کی خلاف ورزی۔
ادب اگر عورت کے لفظ کو عزت نہیں دے سکتا، تو وہ خود اپنی روح سے محروم ہو جاتا ہے۔ ہمیں نہ صرف ان بچیوں کو اس نظام سے بچانا ہے، بلکہ اس بیمار سوچ کے خلاف اجتماعی آواز بھی بلند کرنی ہے۔
ادب کو پاکیزہ، شفاف اور محفوظ رکھنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ اور اس ذمہ داری کا پہلا قدم ہے: سچ بولنا۔ ڈٹ کر، دلیل سے، اور عزت کے ساتھ۔
ادب محض الفاظ کا ہنر نہیں، یہ تہذیبی شعور، اخلاقی فہم اور فکری آزادی کا نام ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آج کا ادبی منظرنامہ کئی ایسی الجھنوں سے آلودہ ہو چکا ہے جن کا شکار اکثر وہ نووارد خواتین تخلیق کار بنتی ہیں جو سچائی، خلوص اور فن کے ساتھ اس دنیا میں قدم رکھتی ہیں۔
یہ محض مفروضہ نہیں، حقیقت ہے۔
حال ہی میں ایک نجی ادبی گروپ — جو بظاہر خواتین شاعرات کو “نمائش” اور “راہنمائی” کا موقع فراہم کرنے کا دعویٰ کرتا ہے — کی اندرونی گفتگو لیک ہوئی، جس میں ایک معصوم نووارد لڑکی کو “ادبی نرمی” نہ دکھانے پر طنز و تحقیر کا نشانہ بنایا گیا۔ اس گفتگو میں جس انداز سے اس کی نظم کے ساتھ اس کے لباس، لہجے اور رویے کو جوڑا گیا، وہ اس بات کی شہادت تھی کہ کچھ لوگوں کے نزدیک ادب ایک مقدس اظہار نہیں بلکہ ذاتی خواہشات کے اظہار کا پردہ ہے۔
اس بچی نے کچھ نہ کہا، چپ رہی، مگر اس کی خاموشی نے بہت سے سوال اٹھا دیے۔
کیا واقعی تخلیق کار ہونے کے لیے تابعدار ہونا شرط ہے؟ کیا عورت کا ادب میں آنا اس کی نسوانیت کے استحصال کا دروازہ بن جائے؟ اور کیا وہ سب جو “استاد” اور “سرپرست” کہلاتے ہیں، احتساب سے بالا تر ہیں؟
ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ادب کو اگر زندہ رکھنا ہے تو ہمیں ان ادبی “دھندہ فروشوں” کے چہروں سے پردے ہٹانے ہوں گے، چاہے وہ کتنے ہی مقبول یا منظم کیوں نہ ہوں۔
ہمیں ادب کی فضا کو ہر بچی، ہر نووارد خاتون کے لیے محفوظ، باوقار اور باعزت بنانا ہے۔ ہمیں یہ واضح کرنا ہوگا کہ تخلیق کی راہ میں سوال اٹھانا بغاوت نہیں، بصیرت ہے۔ اور عزت مانگنا کمزوری نہیں، حق ہے۔
لفظوں کی دنیا میں اگر عزت ساتھ نہ ہو، تو لفظ خود بے معنی ہو جاتے ہیں۔
یہ ایک نہایت اہم اور حساس موضوع ہے، جس پر کھل کر بات کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ادبی دنیا بظاہر علم و فن کی دنیا ہے، مگر اس میں موجود طاقت کے عدم توازن، شہرت کی کشش، اور اخلاقی زوال نے بعض افراد کو “ادبی درندہ” بنا دیا ہے—جو نو وارد لڑکیوں، خاص طور پر کم عمر یا ناتجربہ کار لکھنے والیوں کو اپنا آسان شکار سمجھتے ہیں۔میں اپنی نئی لکھنے والی خواتین اور بچیوں کو چند مشورے دینا چاہوں گی
نو وارد خواتین لکھاریوں کے لیے چند احتیاطیں:
کسی بھی ادیب، شاعر، مدیر یا استاد سے تعلق رکھتے ہوئے ہمیشہ پیشہ ورانہ رویہ اپنائیں۔ بے جا انکساری یا جذباتی لگاؤ سے گریز کریں۔
کئی بار ادیب حضرات “مشورے” یا “رہنمائی” کے بہانے تحریریں منگوا کر ذاتی فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ صرف قابلِ اعتماد اور معروف پلیٹ فارمز سے رابطہ رکھیں۔
اگر کوئی شخص مسلسل آپ کی تحریروں کی تعریف کر رہا ہے مگر ساتھ ساتھ ذاتی تعلقات بنانے کی کوشش بھی کر رہا ہے تو سمجھ جائیں کہ اس کی نیت میں کھوٹ ہے۔
اگر ممکن ہو تو کسی ساتھی کے ساتھ جائیں۔ تنہائی میں ملاقات سے گریز کریں، چاہے وہ کتنا ہی بڑا نام کیوں نہ ہو۔
ذاتی پیغامات، ویڈیو کالز یا جذباتی مکالمات سے پرہیز کریں۔ اکثر ہراسانی کا آغاز آن لائن “ادبی مشورے” سے ہوتا ہے۔
کچھ لوگ خود کو mentor ظاہر کرکے ذہنی یا جذباتی استحصال کرتے ہیں۔ کسی کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کی ذات پر حاوی ہو۔
دوسرے کو سپورٹ کریں، اعتماد کی فضا پیدا کریں، اور اگر کوئی نازیبا رویہ محسوس ہو تو اسے چھپانے کے بجائے قابلِ بھروسا ساتھیوں سے بات کریں۔
کسی بھی غیر اخلاقی گفتگو، دعوت، یا پیغام کا ثبوت ضرور سنبھال کر رکھیں تاکہ ضرورت پڑنے پر