صدا بصحرا
رفیع صحراٸی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یکم مئی “یومِ مزدوراں” کے نام سے موسوم دن کو اس طرح سیلیبریٹ کیا جاتا ہے کہ “صاحبانِ یوم” یعنی مزدور حضرات اینٹوں کے بھٹوں، چوکوں چوراہوں، عمارات کی تعمیر، کھیتوں کھلیانوں، پھیری لگا کر روزی کمانے، بس یا ٹرک اڈوں اور آڑھتوں و منڈیوں میں سامان ڈھوتے نظر آئیں گے جبکہ ہائی کلاس، انٹلکچوئل طبقہ اور فنڈز کھانے والی این جی اوز ان مزدوروں کے درد میں فائیو سٹار ہوٹلوں میں تقریبات منعقد کر کے ان مزدوروں کے ساتھ ایک دو گھنٹے کے لیے اظہارِ یکجہتی کرتے ہیں، فوٹو سیشنز ،لمبی چوڑی تقاریر ،فوٹیجز بنا کر ٹی وی چینلز پر چلوائی جاتی ہیں ہاور پھر سارا سال ان مزدوروں سے عملی طور پر نفرت میں گزار دیا جائے گا۔ سارا سال برینڈز کے پیچھے بھاگنے والے ان وقتی ہمدردوں نے کبھی سوچا بھی نہ ہو گا کہ بھیک مانگنے سے نفرت کرنے والا یہ خوددار طبقہ جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کس طرح کولہو کا بیل بنا ہوا ہے۔ ہر طرح کی سہولیات سے محروم یہ پھٹی ایڑیوں،ٹوٹے جوتوں اور چیتھڑا لباسوں میں ملبوس طبقہ بجلی کے بل میں سترہ قسم کے ٹیکس دے کر، ماچس کی ڈبیہ سے لے کر تمام اشیائے خورد اور معمولی ادویات پر بھی ٹیکس دے کر اشرافیہ، حکومتی زعماء اور متموّل طبقے کے پیٹوں کا ہمیشہ خالی رہنے والا دوزخ بھرنے میں مصروف ہے۔
جوں جوں ہم ماڈرن ہوتے جا رہے ہیں ہماری زندگی میں مصنوعی پن، بناوٹ اور گلیمر کا عمل دخل بڑھتا جا رہا ہے، ہم اخلاقی اقدار سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسروں کو اپنی شان و شوکت اور طرزِ زندگی سے مرعوب کر کے تسکین حاصل کرتے ہیں۔ دل آزاری کسی کو نقصان پہنچا کر یا طعن و تشنیع سے ہی نہیں کی جاتی بلکہ اپنے عمل سے دوسروں کو کم ماٸیگی کا احساس دلانا بھی دل آزاری کا سبب بنتا ہے مگر ہم اس گناہِ بے لذت سے بھی لذت لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
بیاہ شادی پر بے جا اصراف، انواع و اقسام کے مہنگے کھانے، مہنگی اور فضول رسمیں، آنکھوں کو خیرہ کرتے قیمتی لباس بھی غریبوں اور ناداروں کی دل شکنی کا باعث بنتے ہیں مگر ہمارے معاشرے میں یہ سب عمداً دوسروں پر رعب ڈالنے کے لئے ہی کیا جاتا ہے۔ اس کا برا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امرا ٕ کی دیکھا دیکھی مڈل اور لوٸر مڈل کلاس نے بھی یہی روش اپنا لی ہے۔ جس کے نتیجے میں مقروض ہو کر آٸندہ کئی سال تک قرض کا بوجھ اتارتے ہوۓ بعض ضروریات کی قربانی بھی دینا پڑتی ہے۔ پنجابی زبان کی کہاوت کے مطابق ”نک بچ جاندا اے پر لک ٹُٹ جاندا اے“ (ناک تو بچ جاتی ہے لیکن کمر ٹوٹ جاتی ہے)
یہی ٹرینڈ اب روزمرہ زندگی میں بھی شروع ہو گیا ہے۔ کپڑے، جوتے، کاسمیٹکس کے ساتھ ساتھ اب کھانے پینے کی اشیا ٕ بھی برانڈڈ پسند کی جانے لگی ہیں۔ ریڈیو، اخبارات، رساٸل اور ٹی وی پر تشہیری مہم پر بھاری رقوم خرچ کر کے ”برانڈ“ کا درجہ حاصل کیا جاتا ہے اور پھر کٸی گُنا منافع کی کُند چھری سے معزز کسٹمرز کو ذبح کیا جاتا ہے۔ عام دکانوں پر چیزیں خریدنے والے گاہک ہوتے ہیں جبکہ برانڈڈ چیزیں خریدنے والے معزز کسٹمرز کہلاتے ہیں جنہیں گھٹیا اور ناپاٸیدار مال خوب صورت پیکنگ میں دیا جاتا ہے۔ اونچی دکان پھیکا پکوان کے مصداق صرف برانڈ کا نام بکتا ہے۔ مال کی کوالٹی نہیں دیکھی جاتی۔ غریب سبزی اور فروٹ بیچنے والوں کے ساتھ چند روپوں کی رعایت کی خاطر بحث کرنے والے برانڈڈ مال کی پرنٹڈ قیمت بلا تکرار ادا کر دیتے ہیں کہ دوسروں کی نظر میں بحث کرنا ناپسندیدہ عمل ہوتا ہے۔لوگ کبھی میکڈونلڈ، کے ایف سی ،کسی بھی بڑے ہوٹل، کسی مشہوربیکری یا پیزا ہٹ میں خریداری کرتے وقت قیمت کم کروانے کی کوشش نہیں کرتے۔کہ یہ ایٹی کیٹس کے خلاف ہے۔ برانڈڈ مال بنانے اور بیچنے والے دنوں میں دولت کے انبار لگا لیتے ہیں۔ وہ امیر سے امیر تر اور امیر تر سے امیر ترین ہوتے جاتے ہیں۔
ہماری نظر سے روزانہ ایسے پھیری والے بھی گزرتے ہیں جو کھانے پینے کی اشیا ٕ چل پھر کر فروخت کرتے ہیں۔ کچھ لوگ تھوڑا سا فروٹ ریڑھی پر رکھ کر فروخت کرتے نظر آتے ہیں، کوٸی ساٸیکل پر غبارے بیچتا دکھاٸی دیتا ہے، کچھ بوڑھے جھکی کمر کے ساتھ ٹافیاں، گولیاں اور پاپڑ بیچتے نظر آتے ہیں، کہیں کوٸی ننھی سی بچی اپنے گھر کے آگے یا کسی تھڑے پر اپنی چھوٹی سی دکان سجاۓ سموسے پکوڑے بیچتی دکھاٸی دیتی ہے۔ چوکوں چوراہوں پر ایسی بوڑھی خواتین نظر آ جاتی ہیں جو چل پھر کر پنسلیں، رومال بیچنے کی کوشش کر رہی ہوتی ہیں۔ نو عمر بچے ٹرے میں مرونڈا یا چنا چاٹ بیچتے دکھاٸی دیتے ہیں۔ یہ سب لوگ امیر ہونے کے لٸے اپنا ”کاروبار“ نہیں کرتے۔ ان کا واحد مقصد دو وقت کی روٹی کا حصول ہوتا ہے۔ سموسے پکوڑے بیچتی بچی ،مرونڈا یا چنا چاٹ بیچتے نوعمر لڑکے کے پیچھے کھانے والوں میں بیوہ ماں اور پردہ دار جوان بہنیں ہوں گی جن کے لٸے اس نے اپنی تعلیم اور کھیل کود کی قربانی دے کر کفالت کرنے کی ذمہ داری اٹھا لی ہے۔ جھکی کمر والے بوڑھے یا چوراہوں پر رومال پنسلیں بیچنے والی بڑھیا کی جوان کنواری، بیوہ یا مطلقہ بیٹی اور اس کے ننھے منے بچے ہوں گے جن کی خاطر آرام کرنے کی اس عمر میں انہیں گھر سے نکلنا پڑا۔ یہ سب لوگ اپنے خاندان کی روٹی پوری کرنے کے لٸے گھر سے نکلتے ہیں۔ انہوں نے امیر ہونے کا کبھی خواب بھی نہیں دیکھا۔ ان مجبوروں سے کبھی کبھی بلا ضرورت بھی چیزیں خرید لیا کیجٸے کہ ان کے گھر کا چولہا ٹھنڈا نہیں ہونا چاہٸے، یہ لوگ عظیم ہیں۔یہ خود دار لوگ ہیں، ان کی خودداری کی قدر کیجٸے۔ یہ ان لوگوں سے ہزار گنا بہتر ہیں جو ہٹے کٹے ہو کر بڑی ڈھٹاٸی سے بھیک مانگتے پھرتے ہیں۔ اور بھیک نہ دینے کی صورت میں دھمکی آمیز انداز میں بد دعاٸیں دیتے ہیں۔
صرف مزدوروں کے لیے مصنوعی ہمدردی جتانے کا