متاعِ زیست واقعی متاعِ زیست ھے

منشاقاضی حسبِ منشا

2

میں ممنون احسان ہوں محترم خالد شریف صاحب کا جو ہر بہترین کتاب اور ہر بہترین مصنف سے متعارف کروا دیتے ہیں ، اس دفعہ میرے سامنے متاعِ زیست ڈاکٹر حبیب الرحمن کا مجموعہ کلام موجود ہے متاع عربی زبان کا لفظ ہے اور زیست فارسی کا متاع حیات اگر ہوتا تو دونوں عربی میں ہوتے لیکن عربی اور فارسی کا حسین امتزاج اپنی جگہ نہایت خوبصورت ہے زیست جاگ کر گزارنا پڑتی ہے اور عمر سو کر ، اس لئیے زیست اپنی جگہ بڑی قیمتی چیز ہے متاعِ زیست بڑا حسین نام ہے ، مصنف نے متاعِ زیست کا انتساب اپنے ماموں محمد امین منیر مرحوم کے نام منسوب کیا ہے جو ایک پیکر عجز و انکسار تھے اور جن سے زیادہ شرافت اور انسانی ہمدردی انہوں نے کسی میں نہیں دیکھی تھی ، ندیم برلاس کے دست ہنر سے ٹائٹل بڑا دلکش اور دل کو چھو لینے والا ہے ، میں نے بہت ہی کم کم کتابوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن متاعِ زیست نے میری پوری توجہ اپنی خوبصورت شاعری پر مرکوز رکھی ہے مجھے بھی زیست بڑی عزیز ہے اور متاع زست کو تو میں نے حرزِ جاں بنا لیا ہے ،
شاعر اور شہنشاہ روز روز پیدا نہیں ہوتے ، ہومر نے کہا تھا کہ شاعر بنی نوع انسان کے لئیے باعث عزت و افتخار ہیں اور ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شاعری میں ساحری اور جادو اثر تاثیر میں ڈوبی ہوئی مسیحائی پائی جاتی ہے ، ارسطو کے قول پر پورا اترنے والے شاعر ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شاعری میں نثر سے زیادہ فلسفہ اور تاریخ سے زیادہ جان پائی جاتی ہے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن کی برجستگی اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف آنے والی نسلیں کریں گی ، ڈاکٹر صاحب کی شاعری اپنی برجستگی اور سریع الاثری میں لاجواب ہے ، ویسے بھی برجستہ شعر چلتا ہوا جادو اور بولتی ہوئی تصویر ھے ۔ خطابت اور شاعری لازم ملزوم ہیں ، ایک خطیب کانوں کے ذریعے سامعین کے دلوں تک رسائی رکھتا ہے اور شاعر کانوں کا محتاج نہیں ہے وہ سیدھا دل میں اتر جاتا ہے ، خطابت دیرپا نہیں ہوتی لیکن ایک اچھا شعر تادم زیست حلاوت بخشتا رہتا ہے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شاعری ملاحظہ فرمائیں جب ظلم و جور رحم کا مفہوم ہو گئے

تو بد عمل ایک آن میں معصوم ہو گئے

مزید حلاوت محسوس فرمائیں

جس نے بھی درد عشق سے راحت کشید کی

اس کو رہی ہمیشہ تمنا مزید کی

دنیا سے ہی گزر گئے ہم انتظار میں

آنکھیں کھلی رہیں کہ تھیں مشاق دید کی

تو ڈھونڈتا رہا جسے وہ دور تو نہیں

آئی صدا قریب سے جبل الورید کی

دنیا نے کب قبول کیا جرم عشق کو

حاکم نے دی سزا ہمیں قید شدید کی

پھر ھے نظر کے سامنے اک کربلا میرے

پھر آئے ہیں وہ لینے کو بیعت یزید کی

ہے زہد پر غرور جنہیں کیا کریں گے وہ

آئی صدا جو کان میں ھل من مزید کی

دشمن ہوئے ہیں جان کے سالک رقیب پھر

کانوں میں جب بھنک پڑی گفت و شنید کی

زیست ہمسایہ سے مانگا ہوا زیور تو نہیں

ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کھو جانے کا

مجھ سے یہ کتاب کئی لوگوں نے کھو لینے کی جسارت کی ہے لیکن میں نے انہیں مستعار بھی نہیں دی کیونکہ متاع زیست مجھے بڑی عزیز ہے اور تھوڑا سا غور کریں کہ کتنی خوبصورت شاعری ہے ڈاکٹر حبیب الرحمن کا خیال کتنا بلند ہے منتہائے خیال تک پرواز کر جانے والا یہ شاعر میری زندگی میں ہمیشہ مسرت و شادمانی کی لہر چھوڑ جائے گا ، نمونہ ء کلام ملاحظہ فرمائیں ۔

اے خدا رونق ویرانہ بنا دے مجھ کو

درد مہجوری کا پیمانہ بنا دے مجھ کو

عمر کٹ جائے میری چین سے یا رب گر تو

چھین لے حافظہ دیوانہ بنا دے مجھ کو

سحر انگیز نگاہیں ہیں زبان زد عام

اک نظر ڈال کے مستانہ بنا دے مجھ کو

یاد رفتہ مجھے جینے نہیں دیتی یارب

فہم و ادراک سے بیگانہ بنا دے مجھ کو

آتش شوق کو ہے گرمی صحبت کی چاہ

شمع سوزاں اسے، پروانہ بنا دے مجھ کو

خرقہ زہد مجھے راس نہیں آتا ہے

قابل محفل رندانہ بنا دے مجھ کو

ڈاکٹر حبیب الرحمن نے اپنی شاعری میں زندگی ، زیست، جاں ، ہستی، زندگانی، حیات کے خوبصورت الفاظ کا چناؤ بڑی خوبصورتی سے کیا ہے ، خالد شریف رقم طراز ہیں ، صدائے عشق ، آداب عشق اور دشت تشنگی کے بعد ڈاکٹر حبیب الرحمن کا تازہ شعری مجموعہ متاعِ زیست منظر عام پر آ گیا ہے جو غزلیات پر مشتمل ہے اس دورانیے میں حبیب صاحب کے شعری شعور میں پختگی آئی ہے اور انہوں نے مشکل بحور میں بھی آسانی سے شعر کہے ہیں ، متاعِ زیست میں شعری سفر کا ترفع صاف نظر آ رہا ہے وہ مصرعوں کی ساخت پرداخت پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں اور نفس مضمون کو فنی باریکیوں کے ساتھ صفحہ قرطاس پر منتقل کرنے میں کامیاب ٹھہرے ہیں رب ذوالجلال ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ، ادبی دنیا میں متاع زیست کا ورود بڑا ہی نیک شگون ہے اور یہ حقیقت ہے کہ متاع زیست میری متاع گرانمایہ رہے گی مجھے ڈاکٹر حبیب الرحمن کی شاعری میں غالب و اقبال کا کلام رقصاں نظر آتا ہے

بازوق لوگوں کے لیے خالد شریف ماورا کے سربراہ کی دورس نگاہ کا اعجاز ہی کافی ہے ، ڈاکٹر حبیب الرحمن کے بارے میں ، میں نہیں جانتا کہ وہ کس عہدہ ء جلیلہ پر فائز ہیں لیکن میں تصور کی روشنی میں انہیں دیکھے بغیر پہچان رہا ہوں کہ وہ ایک بہت بلند مقام پر فائز ہیں شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت نہیں کی کہ تو انجینیئر بن جا ، تو بہت بڑا افسر بن جا ، انہوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں جو کہا ہے وہ یہی کہا ہے کہ

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

میں تصور کی روشنی میں ڈاکٹر حبیب الرحمن کو ایک

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.