کتب بینی کو فروغ دینا ضروری ہے

تحریر: رفیع صحرائی rafisehraee5586@gmail.com

7

صدا بصحرا
رفیع صحرائی

ہر سال23 اپریل کو دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک میں کتاب کا عالمی دن اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کے تحت منایا جاتا ہے جس کا مقصد بین الاقوامی سطح پر عوام میں کتب بینی کا فروغ، کتابوں کی اشاعت اور کتب بینی کی اہمیت کو اجاگر کرنا ہے۔ کتاب کے عالمی دن کا آغاز سپین میں 1616ء میں ہوا۔ سپین کے شمال مشرقی علاقے کیٹولینیا کے دارالحکومت بارسلونا میں ہر سال 23 سے 25 اپریل تک لوگ اپنی عزیز خواتین اور لڑکیوں کو گلاب کے پھول پیش کرتے تھے اور اس کے جواب میں خواتین کتابیں پیش کرتی تھیں۔ اس دوران جگہ جگہ مشہور ناول کیہوٹی کے حصے کے علاوہ شیکسپیئر اور دوسرے مصنفین کی کتابوں میں موجود ڈرامے پڑھے جاتے تھے۔ 23 اپریل کا دن مخصوص کرنے کی وجہ یہ بنی کہ ڈان کیہوٹی کے مصنف میگوئیل سروانیس، شیکسپیئر اور بیرو کے ناول نگار اور شاعر گاسلا سوڈالا ویگو کا انتقال 23 اپریل کو ہوا۔ اس میں “لولیتا” کے مصنف نویو کوف سمیت کچھ اور شاعروں اور ادیبوں کے یومِ پیدائش اور یومِ وصال کو بھی شامل کر لیا گیا۔ رفتہ رفتہ ڈرامے سننے اور سنانے کا یہ سلسلہ سپین کے دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتا چلا گیا۔ آہستہ آہستہ یہ روایت ورلڈ بک ڈے کی شکل اختیار کر گئی۔ اب ہر سال کیٹولینیا میں صرف گلابوں ہی کی نہیں کتابوں کی بھی ریکارڈ فروخت ہوتی ہے۔ 1995ء میں یونیسکو کی جنرل کونسل کا اجلاس فرانس میں منعقد ہوا تو اس میں 23 اپریل کو “ورلڈ بک اینڈ کاپی رائٹ ڈے” قرار دے دیا گیا۔ یوں یونیسکو کے تحت اس دن کو منانے کی ابتدا 23 اپریل 1995ء میں ہوئی۔ اس میں رواں صدی کے آغاز سے ایک اضافہ یہ کیا گیا ہے کہ کسی ایک شہر کو کتابوں کا عالمی دارالحکومت بھی قرار دیا جاتا ہے۔ 2001ء کا شہر میڈرڈ تھا اس کے بعد بالترتیب اسکندریہ، نئی دہلی، اینٹ روپ، مونٹریال، ٹورن، بگوٹہ، ایمسٹرڈیم، اور بیروت دارالحکومت قرار دیئے گئے۔ امسال یہ اعزاز برازیل کے شہر رکوڈی جینزو کو حاصل ہوا۔ برطانیہ میں ہر سال مارچ کی پہلی جمعرات کو اس دن کے لیے منتخب کیا گیا۔ وہاں اس دن سکولوں کے بچوں میں کتابیں خریدنے کی عادت کو فروغ دینے کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ برطانیہ اور امریکہ میں کتابوں کا عالمی دن 4 مارچ کو منایا جاتا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو ہمارے ہاں یہ دن 23 اپریل ہی کو منایا جاتا ہے لیکن یہاں اس دن کی پذیرائی یورپ اور امریکہ کی طرح نہیں ہوتی۔ سوائے چند ادبی حلقوں مثلاً قائدِ اعظم لائبریری، گورنمنٹ پنجاب پبلک لائبریری، پاک ٹی ہاؤس، الحمراء، پیلاک اور ایوانِ اقبال کے علاوہ ہمیں اس دن کا پتہ اخبارات میں ایک یا دو کالمی خبر اور ٹی وی چینلز پر چند سیکنڈ کی چلائی گئی خبر کی صورت میں ملتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں یہ دن خاموشی سے گزر جاتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومتی سطح پر اس دن کی پذیرائی بالکل بھی نہیں کی جاتی۔
عالمی یومِ کتاب منانے کا مقصد معاشرے میں کتب بینی اور علم کو عام کرنا ہے۔ کتب بینی کے رجحان کو فروغ دینا اس کا بنیادی مقصد ہے اس لیے یہ امر انتہائی ضروری ہے کہ اس دن کو حکومتی سطح پر منایا جائے۔ نئی نسل جو کہ ڈیجیٹل دور کی پیداوار ہے اسے کتاب کی اہمیت سے روشناس کرانا بہت ضروری ہے۔ بحیثیت قوم بھی یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی آئندہ نسل کو کتب بینی کا عادی بنائیں تاکہ یہ روایت زندہ رہ سکے۔ اس کے لیے ہر سال منعقد ہونے والے سالانہ کتاب میلوں کا انعقاد سہ ماہی بنیادوں پر ہونا چاہیے۔ اس مرتبہ لاہور میں منعقد کیے جانے والے کتاب میلے کے بارے میں پتا چلا ہے ک کتب کے سٹال لگانے والوں سے کرایہ کی مد میں بہت زیادہ رقم وصول کی گئی ہے۔ یہ اقدام کتب بینی کی شدید حوصلہ شکنی کے مترادف ہے۔ اس کتاب میلے میں ناشران کی جانب سے کتابیں ڈسکاؤنٹ پر فروخت کی جاتی ہیں۔ مطالعہ کے شوقین حضرات سارا سال ایکسپو کتاب میلے کا انتظار کرتے ہیں جہاں وہ اپنی پسندیدہ اور مطلوبہ کتب سستے داموں خرید لیتے ہیں۔ بعض مقبول اور مشہور مصنفین بھی اس میلے میں موجود ہوتے ہیں جو اپنی کتب کی پروموشن اور خریداروں کی حوصلہ افزائی کے لیے تشریف لاتے ہیں۔ لوگ کتاب خریدتے ہیں، اس کے مصنف سے کتاب پر آٹو گراف لیتے ہیں اور یادگار کے طور پر مصنف کے ساتھ سیلفی بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے علاوہ فخر کے ساتھ دوستوں کو شیئر کرتے ہیں۔ کتاب میلے کتب بینی کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ سستی کتب فروخت کرنے والے ناشران سے بھاری کرائے وصول کرنے کی بجائے انہیں مفت سٹال لگانے کی پیشکش کرنے کے علاوہ ضروری سہولیات بھی مفت فراہم کرے۔
کتب بینی کے فروغ کے لیے تجویز ہے کہ ہر سال 23 اپریل کو تمام سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں سرکاری طور پر یہ دن منانے کا اہتمام کیا جائے جس میں کتب بینی پر سیمینارز، مذاکرے اور تقاریر کی جائیں۔ بڑے شہروں میں مقامی دکان داروں کو کتابوں کے سٹال لگانے کی دعوت اور ترغیب دی جائے۔
ہمارے ہاں کتب بینی کے رجحان میں کمی کی ایک وجہ لوگوں کی قوتِ خرید کا کم ہونا اور کتابوں کی ہوش ربا قیمتیں بھی ہیں۔ مجھے ذاتی تجربہ ہے کہ بہت سال پہلے مال روڈ لاہور کی ایک مشہور اور بڑی دکان پر ایک بڑے شاعر کی کلیات دیکھی۔ اس پر قیمت دو ہزار روپے درج تھی۔ اس وقت میری قوتِ خرید سے بہرحال قیمت زیادہ تھی۔ بعد میں اسی روز لوہاری گیٹ سے باہر احسن صاحب کی دکان پر میرا جانا ہوا۔ میں نے انہیں انڈیا سے ایک کتاب منگوانے کی درخواست کی ہوئی تھی۔ وہاں پر انڈیا سے شائع ہونے والی وہی کلیات اسی گیٹ اپ میں مجھے دکھائی دی جسے میں مہنگا ہونے کی وجہ سے چھوڑ آیا تھا۔ میں نے دیکھا تو اس پر 700 روپے قیمت

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.