ہمارے پیارے سہیل احمد المعروف عزیزی نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صحافی برادری سے اپیل کیے کہ فنکاروں، اداکاروں، گلوکاروں اور مصوروں کے بارے میں ایسا مت لکھا کریں کہ کوئی کسمپرسی میں مر گیا ،اس کے پاس علاج و معالجہ اور زندگی گزارنے کے لیے روٹی نہیں تھی، اس کے بچے لاوارث ہو گئے، اس کے پسماندگان کا کیا بنے گا؟ اس لیے کہ فنون لطیفہ سے منسلک لوگ عام آ دمی نہیں ہوتے بلکہ وہ مالک کائنات کی عطا سے منفرد صلاحیتوں کے مالک ہوتے ہوئے از خود اپنی جدوجہد کا راستہ چنتے ہیں اگر یہ مال و دولت کے پجاری ہوتے تو میدان عمل میں ہوائی روزی کمانے نہ آ تے، کہیں آ ڑھتی ہوتے، کسی کاروبار میں دلچسپی لیتے، جھوٹ اور سچ بول کر بہت کچھ کما سکتے تھے لیکن یہ مال و دولت کی بیوپاری نہیں یہ تو دنیا میں فن و ثقافت کی خدمت کرتے اپنی خداداد صلاحیتوں سے خوشیاں اور مسکراہٹیں بانٹتے ہیں کچھ کو بہت کچھ مل گیا، کچھ اس منزل تک نہیں پہنچ سکے ،جو دنیاوی معیار ہے اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہ اس معاشرے میں منفرد نہیں، وہ پھر بھی دوسروں سے مختلف ہیں ہمارا معاشرہ انھیں تسلیم کرے نہ کرے ،کوئی مقام دے یا مختلف القاب سے نوازے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ کروڑوں کی آ بادی میں گنتی کے لوگ ہوتے ہیں اور قابل عزت اس قدر کہ آ پ ان سے اٹوگراف ہی نہیں لیتے ان کے ساتھ تصویریں بنوانا اور انہیں اپنے خاندان میں مدعو کرنا اعزاز سمجھتے ہیں ،ذرا سوچیں یہ لوگ کسی خاندانی تعلق، اعلی تعلیمی قابلیت اور سرحدوں کے محتاج نہیں، ان کے مختلف نام اور القابات کو معاشرتی تضاد بیانی سمجھیں، وہ اداکار جاوید کوڈو کے انتقال کے تناظر میں بات کر رہے تھے ان کا کہنا تھا اپنے غم فراموش کر کے دوسروں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنا انتہائی مشکل کام ہے یہ کام انہی لوگوں کی میراث ہے جو لکھ پتی، کروڑپتی، ارب پتی نہ ہوتے ہوئے بھی لوگوں میں خوشیاں بکھیر کے غموں کا مداوا بنے ہوئے، ارب پتی، کروڑ پتی تو دودھ پتی چائے نہیں پی سکتے کہ دنیا کی ہر نعمت ہوتے ہوئے بھی انہیں ڈاکٹرز نے زندہ رہنے کے لیے بہت کچھ کھانے سے منع کر دیا ہے ،اس قابل فکر حقیقت پسندانہ گفتگو پر تالیاں بھی بجیں اور زبردست داد بھی دی گئی لیکن ان کی اس تقریر نے میری سوچوں کی گھنٹیاں بجھا دیں اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ بات کتنی خوبصورت اور درست ہے نظام قدرت میں موت تو ہر قیمت پر ایک روزہ آ نی ہے آ ج جاوید کوڈو دنیا کو خیرباد کہہ گیا تو کل ایک دن ایسا بھی آ ئے گا کہ ہم ، آ پ بلکہ سب بغیر الودع کہے رخصت ہو جائیں گے ،ہم جو چاہتے ہیں ،جو نہیں چاہتے سب کا سب یہیں رہ جائے گا، سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے شہر میں ہر روز اربوں پتی ،جاہ و جلال والے خاموشی سے رخصت ہو جاتے ہیں اکثر کے جنازے صرف ایمبولینس پر ہی جاتے ہیں اس لیے کہ عزیز و اقارب سمندر پار ہونے کے باعث شریک نہیں ہو سکتے ، اپنا خون بھی ماں باپ کو کندھا دینے میں نہیں آ سکا ۔۔۔ایسا لگا کہ تمام رشتہ ناطہ زندگی کی باریک ڈوری سے بندھاتھا اور اس کی بنیاد مطلب پرستی تھی، مطلب بہت وزنی ہوتا ہے جب مطلب نکل گیا یا مطلب کی توقعات نہ رہی تو رشتے بے وزن ہو گئے، ایسے میں مجھے جاوید کوڈو چھوٹے قد میں ایک بہت بڑا آ دمی دکھائی دے رہا ہے جس نے آ نکھ بند کی ،،بحکم ربی،، تو اپنے پرائے سینکڑوں ا سے رخصت کرنے پہنچ گئے پاکستان بھر کی اعلی شخصیات نے اظہار تعزیت کیا، اخبارات اور چینل سے خبریں نمایاں انداز میں موضوع بحث رہیں کیونکہ یہ بوریا نشین خدائی خدمت گار ملک و ملت کے سفیر ہوتے ہیں اب غور کریں کہ یہ کسمپرسی میں کون مرا؟؟؟ کوڈو تو بہت امیر ثابت ھوا،
ابتدا میں جاوید کوڈو نے ایک سے زیادہ میری ٹی وی اور اسٹیج کی پروڈکشن میں کام کیا جب وہ اپنی زندگی کی پہلی ھی سیڑھی پر نماز روزہ کا سختی سے پابند نظر آ یا،ایک روز ریہرسل سے اچانک غائب ہو گیا اور تھوڑی دیر میں واپس بھی آ گیا، میں نے سرزنش کی تو پہلے صبر کیا پھر شرما کر بولا۔۔ سر جی نماز پڑھنی تھی، میں شرمندہ ہو گیا کہ میں نے جواب طلبی کیوں کی؟پھر بھی شیطانی سوال کر دیا کہ تمہیں اللہ نے ایسا کیا دے دیا کہ بھاگ بھاگ کر سجدہ کرتے ھو؟
بولا ۔۔۔سر جی برا نا منانا، اتنا کیا کم ہے کہ اس نے مجھے اشرف المخلوقات میں جگہ دے دی اور یہاں کتنے آ دمی شہرت یافتہ قد آ ور آ رٹسٹ موجود ہیں اور ان میں جاوید کوڈو بھی شامل ہے اگر مالک مجھے اس قد کاٹھ سے بھی نہ نوازتا اور کوئی جانور یا کیڑا بنا دیتا تو۔۔۔۔۔میں لاجواب ہی نہیں چھوٹے قد کے بڑے آ دمی کی مثبت سوچ کا قائل ہو گیا، مجھے احساس ہوا کہ دنیا کے خوبصورت حسین لوگوں کے مقابلے میں یہ عام سی صورت والا جاوید جسے اداکار حاجی البیلا نے کوڈو کا نام دے دیا وہ اپنی ظاہری شخصیت سے کہیں بڑا ھے ، ایک متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے اور قدرتی کمیوں کے باوجود اس نے تقدیر کی لکھے سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے فقط عاجزی، انکساری، ادب و احترام کا راستہ بنایا اور محنت لگن سے اپنی خامیوں کو خوبیوں میں تبدیل کر لیا بلکہ معاشرے کے ہر وار کا ثابت قدمی سے مقابلہ کیا اس نے وصی شاہ کے پروگرام میں اپنی زندگی کے آ خری انڑویو میں دکھ درد کی داستانیں بھی سنائیں، لوگوں کے نارووا سلوک کا ذکر بھی کیا اور یہ بھی بتایا کہ جن کو اللہ نے مجھ سے بڑا صحت و توانا جسم دیا انہوں نے میرا محنتانہ بھی کھا لیا اور طاقت و منصب کے غرور