ملکی تعمیروترقی کیلیے مواصلاتی نظام کی اہمیت

اج کا اداریہ

4

وفاقی وزیر برائے مواصلات عبدالعلیم خان نے اعلان کیا ہے کہ 2 ارب ڈالر کی لاگت سے سکھر-حیدرآباد موٹروے (ایم-6) اور کراچی-حیدر آباد موٹروے (ایم-9) کی تعمیر رواں سال شروع ہو جائے گی۔
رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر نے یہ اعلان نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ چین-پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا لازمی حصہ ہے، ایم 6 منصوبہ پہلے ہی چھ سال کی تاخیر کا شکار ہے۔
قبل ازیں پاکستان بزنس کونسل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال بھی کہہ چکے ہیں کہ حیدرآباد سکھر موٹر وے پی ٹی آئی حکومت نے روکی اور اب اس کی لاگت دگنی ہو چکی ہے۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اسی سال حیدرآباد سکھر موٹر وے پر کام شروع ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ نئی حیدرآباد کراچی موٹر وے نئے راستے پر بنائی جائے گی۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ یکم اپریل 2022 کو پاکستان ڈیفالٹ کر چکا تھا، ہم قلیل مدت میں ملک کو واپس ٹریک پر لائے ہیں
سینیٹ کے ایک حالیہ اجلاس میں این ایچ اے کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ ایم 6 منصوبے کو اولین ترجیح دے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے منصوبہ بندی و ترقی نے ایم 6 موٹروے سے متعلق جائزہ لیا تھا، اور این ایچ اے کو ہدایت کی تھی کہ دیگر تمام سڑکوں کے منصوبوں پر کام روک دیا جائے اور ایم 6 منصوبے کی تعمیر فوری طور پر شروع کی جائے۔
اس موقع پر وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کمیٹی اراکین کو کمیٹی کے تمام فیصلوں پر عملدرآمد کی یقین دہانی کرائی تھی اور اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ پہلی ترجیح ایم 6 منصوبے کو دی جائے گی۔
گزشتہ ماہ ایک بیان میں احسن اقبال نے کہا تھا کہ ایم 9 کے ساتھ ایم 6 منصوبے پر کام اگلے سال شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے پورے ایم 6 پروجیکٹ کو تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کرنے کا آپشن بھی پیش کیا تھا۔
پیر کو اجلاس کے دوران عبدالعلیم خان نے کہا کہ حکومت اسی عرصے کے دوران خیبر پختونخوا میں مانسہرہ، ناران اور کاغان موٹرویز پر بھی کام شروع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئٹہ کراچی ہائی وے (این 25) کو بھی فور لین موٹر وے میں اپ گریڈ کیا جا رہا ہے۔
وفاقی وزیر نے لاہور سے قصور تک 18 کلو میٹر لنک روڈ کا تفصیلی پلان پیش کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
گزشتہ برس سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے مواصلات کوبریفنگ دیتے ہوئے وزارت مواصلات کے حکام نے بتایاتھا کہ ملک میں پانچ لاکھ کلومیٹر سڑکوں کا جال پھیلا ہوا ہے جس میں پانچ ہزار نیشنل ہائی وے کے پاس ہے،اگر حکومت مزید کوئی سکیموں کا اعلان نا کرے تو پانچ سال سے زائد عرصے میں پچھلی سکیمیں مکمل نہیں ہوسکتیں،صوبائی حکومتیں اپنی سڑکوں کی حفاظت کیلئے نیشنل ہائی وے سے کہتی ہیں مگر وہ فنڈنگ اور معاہدے کی تکمیل میں ناکام رہے، ہم پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔،چیئرمین این ایچ اے کا کہنا تھا کہ این ایچ اے کا 40 فیصد نیٹ ورک بلوچستان میں ہے،کوئٹہ کراچی روڈ کا سروے ہو چکا ہے،اس سڑک کو دو رویہ کر رہے ہیں۔سینیٹر شمیم آفریدی کی جانب سے کہا گیا کہ اس وقت این ایچ اے جو سڑکیں بنا رہا ہے یہ امریکی سسٹم اپنا رہے ہیں۔اجلاس میں سکھر حیدرآباد موٹروے منصوبے پر پیشرفت کا معاملہ زیر بحث آیا۔چیئرمین این ایچ اے کا کہنا تھا کہ پشاور سے کراچی موٹروے میں سکھر سے حیدرآباد پورشن باقی رہتا ہے،307 کلومیٹر کی کل لاگت1.2 بلین ڈالر بن رہی ہے،وزیراعظم کے ساتھ اس پر میٹنگ ہوئی تھی،یو اے ای حکومت چاہتی ہے لاجسٹک سیکٹر میں انویسٹمنٹ کرے،ملک کا سیاسی ماحول بھی ایک مسئلہ ہے، ایف ڈبلیو او کے ساتھ حیدر آباد کی طرف سے پہلے پورشن پر بات چیت میں ہیں، ہم نے چائنیز اور ایف ڈبلیو او کو بھی انگیج کیا ہوا ہے،اس کا مکمل ڈیزائن اورفیزیبلٹی ہو چکی ہے،چائنیز کے ساتھ تقریبا اڑھائی سو کلو میٹر پر بات چل رہی ہے،اٹالین کمپنی کے ساتھ کنٹریکٹ ختم کردیا ہے۔سینیٹر دنیش کمار نے کہا کہ پرانے منصوبے ہی مکمل کرنے کے لئے ہی ان کو دس سال چاہئیں۔سینیٹر کامل علی آغا کی جانب سے کہا گیا کہ جب تک نئی حکومت نہیں آئے گی، اس پرفیصلہ نہیں لیا جاسکتا۔کمیٹی نے مارچ تک معاملہ موخر کردیا۔اجلاس میں موٹروے پر رائٹ آف وے اور انٹرچینجز کی تعمیر کے طریقہ کار پر بحث کی گئی۔این ایچ اے حکام کا کہنا تھا کہ پالیسی کے تحت کیپیٹل سمارٹ سٹی کو انٹرچینج دیا گیا ہے،وہ بھی انڈر کنٹرکشن ہے۔سینیٹر کامل علی آغا نے استفسار کیا کہ ایم ٹو پر انٹرچینج کے لئے کتنی درخواستیں آئی ہیں؟جواب میں این ایچ اے نے کہا کہ ایم ٹو پر انٹرچینج کے لئے تین درخواستیں آئی ہیں،کیپٹل سمارٹ سٹی کو مل چکاہے،لاہور سمارٹ سٹی اور شیخوپورہ کے قریب ایک درخواست آئی ہے۔
کسی بھی ملک کہ لئے بینادی انفراسٹریکچر کا ھونا اس ملک کی معاشی تعلیم صحت ،صنعت تجارت طب انجینئرنگ کی تعلیم میں مرکزی کردار ھوتا ھے اسلیئے مسلم لیگ کے قائد میاں محمد نواز شریف جب بھی حکومت ملی ملک میں بنیادی انفراسٹرکچر کو توسیع اور ملک کے ھر خطہ کی جانب اس کو بڑھانے اور پھیلانے کا خواب رھا ھے۔کیونکہ وہ سمجھتے ھیں علاقائی امدو رفت کی وسعت اور سرعت کھیت سے کھلیان اور منڈی سے بڑھ کر پورے ملک میں تیز ترین اور محفوظ ترین سفر کی سہولہت سے جہاں جہاں مرکزی شاھراھیں موٹروے ، ھائی ویز بنے ھیں وھاں اباد کاری، روزگار تعلیم صحت صنعت نوکری کے زرائع بڑھے ھیں اجکل ملک کے وسیع تر علاقے موٹر وے بننے سے اس کے علاقائی اور ملحقہ علاقہ خوشحال اور ترقی اور زکر کئی گئی سہولتیں مل رھی ھیں سی پیک جیسے عظیم منصوبہ سے ایسے ترقی اور موٹر ویز سے ھوگی جس طرح شیر شاہ سوری کے دور میں گرینڈ ٹرنک روڈ جو جی ٹی روڈ Road Gt کے نام سے مشہور ھے جس کہ متعلق اپ تفصیل پڑھ کر اندازہ ھو

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.