کچھ علاج اس کا بھی اۓ چارہ گراں ہے کہ نہیں ؟

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

3

بجلی کے بڑے بڑے  بلوں سے بوکھلاۓ عوام  نے اپنی جمع پونجی لگا کر سولر لگوانے شروع کردئیے  جو بہاولپور جیسے گرم علاقے میں کسی نعمت سے کم نہیں ہیں وگرنہ شاید عام آدمی  بجلی کا استعمال ترک کرچکا ہوتا یا پھر بادل نخواستہ شدید گرمی اور شدید سردی  برداشت کرنے پر مجبور ہو جاتا ۔آج بھی صرف چند فیصد لوگ ہی اس سہولت سے فیض یاب ہو پاۓ ہیں باقی لوگ بھاری بلوں کی اس کرب  اور اذیت سے گزر رہے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ بھاری بل یا سہولت  دونوں میں سے ایک ہی مل سکتی ہے ۔سولر سسٹم کی قیمتیں اتنی ہیں کہ غریب  تو سوچ بھی نہیں سکتا  ا لبتہ کچھ لوگوں نے اپنے گھر کے زیور تک بیچ کر یہ مہنگا سودا کر لیا ہے ۔پچھلے کئی سالوں سے کسانوں  کے  ان کی فصل پر اخراجات  ان کی فصل کی فروخت کی قیمت تک جا پہنچے ہیں ۔موجودہ مہنگائی سے ہمارا زرعی کاشتکا ر بےحد متاثر ہوا ہے ۔بہت سے صاحب حیثیت یا متوسط طبقہ کے زمینداروں نے بھی بجلی کے بلوں میں بچت کے لیے سولر لگانے کو ترجیح دی ہے تاکہ ٹیوب ویل  کے ذریعہ پانی حاصل کرنا کچھ سستا ہو سکے اور فصل پر لاگت کم آۓ ۔دیہاتوں میں  جگہ جگہ سولر سسٹم لگانے سے سستی بجلی کا حصول تو ممکن ہو گیا ہے ،بلکہ چولستان جیسے دور دراز علاقوں  کو سولرز سسٹم کی بدولت پورا صحرا ہی روشن کر دیا گیا ہے ۔جسے جدید ٹیکنالوجی کی فتح قرار دیا جاسکتا ہے ۔لیکن ساتھ ساتھ چند مسائل اور مشکلات نے بھی سر اٹھا لیا ہے ۔سولر پینل اور انورٹر گھروں اور تجارتی مقامات کو بجلی فراہم کرنے کے لیے ایک مقبول انتخاب تو بن گیا ہے  کیونکہ یہ صاف اور قابل تجدید توانائی فراہم کرتے ہیں ۔تاہم یہ تنصیبات چوری کے لیے قابل قدر اہداف بھی ہوتے ہیں ۔چوری کو روکنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یہ شمسی پینل حسب منشا کام کرتے رہیں  ان کی حفاظت  اور چوری سے بچاؤ ایک گھمبیر مسئلہ بنتا جا رہا ہے کیونکہ یہ قیمتی اشیاء ہونے کی وجہ سے چوروں کے لیے آسان ہدف ثابت ہو رہے ہیں ۔شہروں اور گلی محلوں میں تو یہ گھر کی چھتوں پر  کسی قدر محفوظ  سمجھے جاتے ہیں لیکن دیہاتوں میں یہ نہایت غیر محفوظ ہوتے ہیں ۔ہمارے دیہات جہاں سےپیشہ ور چوروں کے ذریعے  جا نور  ،مویشی اور فصلین تک چرا لی جاتی ہیں وہاں سےان اشیاء کا چرالینا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہوتا ہے ۔سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا پر ان شمسی اشیاء کی چوری کے واقعات کی خبریں اکثر پڑھنے کو ملتی رہتی ہیں ۔چند لوگوں کے تو گھروں کی چھت سے یہ پلیٹیں چرا لی گئی ہیں اور ان سے منسلک کیبلزبھی غائب کر دی گئی ہیں ۔اس شعبہ سے وابستہ ایک ماہر سے اس کا حل پوچھا تو انہوں نے چند رٹے رٹاۓ حل یہ بتاۓ کہ انورٹر کی ایک محفوظ مقام پر تنصیب  یعنی انورٹر کو ایسی جگہ نصب کریں جو عام نظروں سے اوجھل ہو، جیسے اندرونی کمرے یا گھر کے اندرونی حصے میں ۔ اگر انورٹر باہر نصب ہے تو اسے کسی مضبوط دھات کے باکس یا پینل میں بند کریں۔ انورٹر کو تالے یا اینٹی تھیفٹ سسٹم کے ساتھ محفوظ کریں۔ دھات کی کیج (جالی) یا فولادی فریم کا استعمال کریں تاکہ اسے نکالنا مشکل ہو۔ انورٹر کے قریب نگرانی کے لیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کریں اور کیمروں کو ایسی جگہ لگائیں کہ ان کی ویڈیو ریکارڈنگ واضح ہو ایک الارم سسٹم لگائیں جو انورٹر کی چھیڑ چھاڑ پر آواز پیدا کرے۔ کچھ انورٹرز میں پہلے سے اینٹی تھیفٹ فیچرز موجود ہوتے ہیں، انہیں فعال کریں۔ جدید انورٹرز میں جی پی ایس ٹریکر نصب کیا جا سکتا ہے تاکہ چوری کی صورت میں مقام کا پتا چل سکے۔ انورٹر اور بیٹریوں کو مضبوطی سے زمین یا دیوار کے ساتھ فکس کریں تاکہ انہیں فوری طور پر ہٹانا ممکن نہ ہو۔ چوکیدار یا گارڈ کی خدمات حاصل کریں خاص طور پر اگر یہ صنعتی یا زرعی علاقے میں نصب ہیں۔ سولر انورٹر اور سسٹم کے لیے انشورنس حاصل کریں تاکہ چوری کی صورت میں نقصان کی تلافی ہو سکے۔ علاقے کے لوگوں کو آگاہ کریں اور کمیونٹی واچ پروگرام شروع کریں۔ کسی بھی مشکوک سرگرمی پر فوری اطلاع دیں۔ یہ اقدامات آپ کے سولر انورٹر کو چوری سے بچانے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔میں ہنس پڑا کہ جو علاج وہ بتا رہے ہیں وہ تو سولر کی قیمت سے بھی زیادہ  کا ہے ۔سولر تو حکومت اورعوام اس لیے ترجیحی بنیادوں پر لگا رہی ہے کہ اخراجات میں کمی ہو جبکہ ان اقدامات پر سولر سے زیادہ رقم درکار ہو سکتی ہےاور پھران پر لگے سی سی ٹی وی اور  لوہے کے جنگلوں کو چوری سے کون بچاۓ گا ۔

میرے ایک دوست مدحت حسین کامل صاحب جو  فیصل آباد زرعی یونیورسٹی کے سابقہ  پروفیسر بھی رہ چکے ہیں اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے وراثتی رقبہ پر اپنے تجربے کی بنیاد پر بڑی محنت اور ریسرچ کر رہے ہیں   اور ایک ترقی پسند کاشتکار سمجھے جاتے ہیں ۔یقینا” ایک پڑھا لکھا اور زراعت کے شعبہ سے وابستہ زمیندار کسی بھی دوسرے زمیندار سے بہتر زمین کی دیکھ بھال اور  اضافی پیداوار   حاصل کر سکتا ہے ۔جدید خطوط پر ان کی کاشتکاری بڑی مثالی سمجھی جاتی ہے ۔انہوں نے بھی اپنے رقبہ پر  ٹیوب ویل پر سولر سسٹم لگوا کر اپنے فارم ہاوس  کو جدید  کاشتکاری کے لیے پانی کی سپلائی کا بندوبست تو کر لیا مگر چند ہی دنوں بعد ان کے رقبے سے سولر سسٹم کا انورٹر چوری ہو گیا جو پورے سولر سسٹم میں سب سے قیمتی شمار کیا جاتا ہے ۔اب وسیع رقبے میں ہر سولر  یونٹ کے ساتھ دیہاتوں   میں چوکیدار  تعینات تو نہیں کیا جاسکتا۔وہ بڑے پریشان ہوۓ ایک تو مالی نقصان دوسرے نئے انورٹر کے لگوانے تک کام کا رک جانا  ۔اپنی ذاتی کوششوں کے ساتھ ساتھ مقامی پولیس میں رپورٹ بھی درج کرائی ۔ہر طرح کی بھاگ دوڑ کے باوجود نہ تو وہ ہی انورٹر بازیاب کر سکے اور نہ ہی متعلقہ پولیس ہی چوروں کو پکڑ سکی  مجبورا” کڑوہ گھونٹ پینا پڑا اور ایک نیا انورٹر بڑے مہنگے داموں لگوانا پڑا ۔ابھی وہ کھوجیوں اور پولیس کے ذریعے چوروں کو پکڑوانا چاہتے تھے کہ چوروں کو ان کی یہ بات ذرا بھی اچھی نہ لگی اور چند روز بعد ہی ان کا دوسرا اور نیا انورٹر بھی بڑی مہارت اور دیدہ دلیری سے وہیں سے پھر چوری کر لیا گیا۔مجھے نہیں پتہ کہ پھر کیا ہوا ؟ دوسرا بھی برآمد ہوسکا یا نہیں ؟لیکن سننے میں یہ آتا ہے کہ شہر ہو گاوں سولر پلیٹ ،کیبلزاور انورٹر چوری ہوتی رہتی ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے ۔

سوال یہ ہے کہ سولر سسٹم  کا ملک بھر میں پھیلا ہوا یہ وسیع نظام اور ان کی تنصیبات بغیر سیکیورٹی اور تحفظ کے کیسے عوام الناس کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے؟ ہمیں پولیس  اور اپنے سیکورٹی ادادروں کی  کارکردگی اور نیک نیتی پر بھی ذرا بھی شک نہیں ہے  ان کو درپیش مشکلات کا بھی احساس ہے لیکن جائیں تو جائیں کہاں ؟ ہماری آخری امید تو وہی ہوتے ہیں ۔۔اتنے بڑے اور پھیلے ہوۓ سسٹم کو کیسے سیکورٹی  دینی ہے ؟ یہ ارباب اختیار اداروں ا ور حکومت وقت کو سوچنا پڑے گا ورنہ رفتہ رفتہ لوگ اور خصوصی طور پر دیہات کے لوگ   عدم تحفظ کا شکار ہوکر سولر لگوا نا چھوڑتے چلے جائیں گے ۔قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اس سلسلے میں ہر تحصیل کی سطح پر ایک  خصوصی سیل اور ایسی  ٹاسک فورس تشکیل دینا چاہیے جو ان  مخصوص اور پروفیشنل چوروں  کا سدباب کر سکے جو لوگوں سے شمسی توانائی  اور سولر کی روشنی بھی چھین رہے ہیں ۔

دل کے ٹکڑوں  کو بغل بیچ لیے پھرتا ہوں

کچھ علاج اس کا بھی اۓ چارہ گراں ہے کہ نہیں ؟

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.