عنوان: پنجابی ثقافت

ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

5

پنجابی ثقافت کو آج جس انداز میں “پیش” کیا جا رہا ہے، وہ درحقیقت اس عظیم تہذیب کی روح کی توہین ہے۔ رنگ برنگے کپڑوں، ہاتھوں میں پنکھوں، لڑکیوں کے “ہیراں” بننے اور بھنگڑے کے مصنوعی مظاہروں کے پیچھے اصل پنجاب کہیں گم ہو چکا ہے۔ تعلیمی اداروں میں “پنجابی کلچر ڈے” منایا جاتا ہے، مگر وہاں پنجابی زبان بولنے پر شرمندگی دلائی جاتی ہے۔ وہ زبان جس میں تصوف کی گہرائی، دانائی کی روشنی اور محبت کی شدت پوشیدہ تھی، آج محض جگت بازی اور لطیفے سنانے تک محدود ہو چکی ہے۔الحمرا آرٹس کونسل میں پنجاب کلچرل ڈے منایا گیا۔ہماری چیف منسٹر آور وزیر صاحبہ گانے پنجابی کے سن کر سنگر کے ساتھ پنجابی بولنے میں فخر محسوس کرتی رہیں۔

کیا پنجاب صرف رانجھا کا عشق اور ہیر کا دکھ ہے۔کیا کلچر صرف لوک کہانیوں کا نام ہے۔نہیں، ہرگز نہیں! ثقافت کا تعلق خوراک، رہن سہن، رویوں، عقائد، زبان، تفریح اور روزمرہ کی زندگی سے ہوتا ہے۔ اگر پنجابی ثقافت کو منانا ہے تو بچوں کو بتائیں کہ یہاں کی صبح ازان سے شروع ہوتی تھی، بزرگ نماز پڑھ کر کھیتوں میں بیل لے کر نکلتے تھے، مائیں قرآن کی تلاوت سے دن کا آغاز کرتیں، اور بچے مدرسے یا مسجد میں قرآن پڑھ کر اسکول جاتے۔ اُن کی صبح سورج کے ساتھ جڑتی تھی، نہ کہ فجر کے وقت سونے کے فیشن سے۔

بچوں کو یہ سکھایا جائے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، بچیاں ماؤں کے ساتھ کھانا پکاتیں، گڑیا کی شادی کا کھیل کھیلتے ہوئے سلائی اور دعوت داری سیکھتیں۔ ان کے کھیل جسمانی مشقت، ذہنی چستی اور سماجی تعاون کا درس دیتے۔ “اندھے بھینسا”، “لکن میٹی”، “پٹھو گرم”، “گلی ڈنڈا”، “اونچ نیچ” جیسے کھیلوں سے نہ صرف جسمانی صحت بہتر ہوتی بلکہ دوستی، خلوص اور برداشت بھی پروان چڑھتی۔

کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ کلچر ڈے پر “ہنڈیا کلیا” کروایا جاتا، بچیوں سے گڑیا کی شادی کا سماجی کھیل کروا کے انہیں گھر داری کے ہنر سکھائے جاتے؟ یا لڑکوں کو کھیتوں کی اہمیت، جانوروں کی دیکھ بھال اور بزرگوں کے ساتھ حسن سلوک کا سبق دیا جاتا؟

دراصل ہم نے پنجابی کلچر کے نام پر سکھوں کی رسموں، ان کی پہچانوں، اور ان کی وضع قطع کو اپناتے ہوئے خود کو ان سے الگ کرنے کی بجائے ان جیسا بنانے کی کوشش کی۔ سکھ آج بھی اپنی ثقافت پر قائم ہیں،ہم چاہے جتنی بھی تعلیم یافتہ ہوں، مگر ہم پنجابی مسلمان اپنے لباس، زبان اور شناخت سے بیزار دکھائی دیتے ہیں۔ وہ خواتین آج بھی اپنی مجالس الگ رکھتی ہیں، مگر ہمارے تعلیمی اداروں میں بچیوں کو اچھل کوداور جھومرسکھائی جا رہی ہے، گویا پنجابی لڑکی صرف ناچنے کے لیے پیدا ہوئی ہے۔

کیا کسی باپ کو یہ گوارا ہے کہ اس کی بیٹی کو ہیر بنا کر اسٹیج پر چڑھا دیا جائے۔کیا کوئی ماں چاہے گی کہ اس کا بیٹا رانجھا بنے اور بانسری لے کر جنگلوں کی خاک چھانے۔کیا پنجاب کے بزرگوں نے صرف ساگ کھانے، گڑ کھانے اور ناچنے کے لیے یہ سرزمین بسائی تھی۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن اداروں میں پنجابی بولنے پر ناک چڑھائی جاتی ہے، وہی ادارے سب سے آگے بڑھ کر پنجابی کلچر ڈے مناتے ہیں۔ کلچر ڈے نہیں، یہ تضاد ڈے ہے! پنجابی زبان کو ڈراموں میں مالی، ڈرائیور، یا بدتمیز کرداروں کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ ہماری زبان کو دشنام طرازی کی زبان بنا دیا گیا ہے، جسے سن کر تعلیم یافتہ طبقہ نظریں چرانے لگتا ہے۔

پنجابی ثقافت محض ڈھول، ساگ، اور جھومر نہیں—یہ علم، تصوف، محبت، محنت اور دیانت کا نام ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں بلھے شاہ نے “پڑھ پڑھ علم ہزار کتاباں” کہہ کر روحانی بیداری کی راہ دکھائی۔ یہ وہ تہذیب ہے جس میں بزرگوں کی خدمت کو عبادت سمجھا جاتا تھا، اور ہر دروازہ مہمان کے لیے کھلا ہوتا تھا۔

اگر ہم نے پنجابی ثقافت کو بچانا ہے تو اسے مصنوعی میلوں، ساگ کے سٹال اور پنکھوں کی نمائش سے نکال کر گھروں میں، زبانوں میں، سکولوں میں، اور دلوں میں واپس لانا ہو گا۔ ہمیں اپنے بچوں کو بتانا ہو گا کہ پنجابی ہونا فخر کی بات ہے—نہ کہ مذاق۔

ورنہ ایک دن یہی بچے کہیں گے، “امی پنجابی مت بولو، لوگ ہنسیں گے!”
اور وہ دن ہماری تہذیبی موت کا دن ہو گا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.