مائنز اینڈ منرلز بِل . حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرے، صوبوں کی سن کر افہام وتفہیم سے آگے بڑھے
اداریہ
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں مائنز اینڈ منرلز بِل پر بریفنگ کو 21 اپریل تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ تحریک انصاف کے سربراہ بیرسٹر گوہر علی خان نےگزشتہ روز بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعلی خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور اور متعلقہ سیاسی قیادت سے عمران خان کی ملاقات تک اس معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتی۔
خیبر پختونخوا میں مجوزہ مائنز اینڈ منرلز بل 2025 اسمبلی میں پیش کیے جانے سے پہلے ہی متنازع ہوگیا تھا۔ صوبائی حکومت میں شامل ارکان کا کہنا ہے کہ اس بل کے بارے میں فیصلہ اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کریں گے۔
یہ بل ایک ہی وقت میں ملک کی تمام صوبائی اسمبلیوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔ جب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی سے پوچھا گیا کہ یہ بل خیبر پختونخوا حکومت کو کس نے پیش کرنے کا مشورہ دیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کو ہی معلوم ہوگا کیونکہ وہی وفاق کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کے جرگہ ہال میں گذشتہ روز اس بل کے بارے میں ایک بریفنگ کا انتظام کیا گیا تھا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے اراکین موجود تھے لیکن اس اجلاس میں ایسی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی کہ سپیکر کو یہ بریفنگ موخر کرنا پڑی۔
بریفنگ میں موجود صحافیوں نے بتایا کہ اس بل پر بریفنگ جب شروع ہوئی تو پی ٹی آئی کے رکن نے اس پر اعتراض کیا اور کہا کہ یہ بل صوبے کے اختیارات کے خلاف ہے۔
اس کے بعد عوامی نینشل پارٹی کے رکن نثار باز نے نکتہ اٹھایا کہ اس بل کے ذریعے صوبے کا اختیار کسی نجی کمپنی کو دیا جا سکتا ہے جس پر پی ٹی آئی کے رکن مینا خان نے کہا کہ اے این پی نے بلوچستان میں اس بل کی حمایت کی ہے اور یہاں مخالفت کر رہی ہے۔
باجوڑ سے منتخب پی ٹی آئی کے رکن انور زیب نے کہا کہ یہ بل کیسے اور کب آیا انھیں نہیں معلوم لیکن ان کا موقف ہے کہ اس بارے میں عمران خان کا جو فیصلہ ہوگا، وہی تسلیم کیا جائے گا۔ اس بریفنگ میں پی ٹی آئی کے کچھ اراکین نے کہا کہ یہ عمران خان کی منظوری کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جانا چاہیے۔دوسری جانب اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی احمد کنڈی نے میڈیاکو بتایا کہ مائنز اینڈ منرلز اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبائی اختیار میں آتا ہے لیکن اس بل میں جو زبان استعمال کی گئی ہے وہ واضح نہیں ہے اور اس میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس کی مثال ایسی ہے جیسے سٹریٹجک منرلز کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کی وضاحت نہیں ہے کہ سٹریٹجک منرلز سے کیا مراد ہے۔ اسی طرح نیوکلیئر انرجی کے لیے جو منرلز استعمال ہوں گے، وہ اس میں مستثنی ہوں گے حالانکہ اس کے لیے ریڈیو ایکٹو منرلز کا ذکر ہونا چاہیے تھا اور وہ وفاق کے اختیار میں ہوتا ہے۔
ان کے مطابق جو لائسنسنگ اتھارٹی قائم کی گئی ہے اس میں بیورکریٹک سٹرکچر زیادہ ہے، اس میں سیاسی نمائندگی نہیں ہے۔ احمد کنڈی سے جب پوچھا کہ بلوچستان میں اس بل کو منظور کر لیا گیا ہے جبکہ یہاں اس کی مخالفت ہو رہی ہے اس پر انھوں نے کہا کہ ہر صوبے کے اپنے ڈائنامکس ہیں۔
’یہاں خیبر پختونخوا میں معدنیات سے آمدن چند سالوں میں پانچ ارب روپے تک پہنچ گئی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ اس بل میں وفاق کو نمائندگی دی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جو پالیسی وفاق کی جانب سے آئے گی اس پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
اس بل میں تنظیم بنانے کا ذکر بھی ہے جس میں نجی کمپنی پچاس فیصد تک نمائندگی حاصل کر سکتی ہے اور اس بل کی زبان سے ایسا لگتا ہے کہ صوبائی حکومت اپنے اختیارات کم کر رہی ہے اور وفاق کے حوالے کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ اس سے پہلے بھی صوبے کے بہت سے اختیارات وفاق کے پاس ہیں اور ’ان پر دیکھ لیں کیا مل رہا ہے۔‘ ان کا اشارہ صوبے سے گیس تیل کے علاوہ پن بجلی پر منافع اور دیگر ایسی معدنیات کی جانب تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شوکت یوسفزئی کا کہنا ہے کہ اب ارکان نے یہ بل عمران خان کو بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس بارے میں عمران خان جو کہیں گے اس پر عمل درآمد ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ اس بل پر وضاحت درکار ہے۔
تاہم انھوں نے بعض پہلوؤں کی حمایت کی جیسے ’ماضی میں اگر کوئی پرائیویٹ بندہ کوئی لیز حاصل کر لیتا تھا تو اس پر کام شروع نہیں کیا جاتا تھا اور لیز بند رہتی تھی۔ اب اس میں کہا گیا ہے کہ لیز پر کام تین ماہ کے اندر شروع کرنا ہوگا۔‘
گلگت بلتستان میں اب تک مائنز اینڈ منرلز بل نہیں پہنچا لیکن اس بارے میں بحث وہاں بھی جاری ہے۔ اس بارے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما امجد حسین ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ اگرچہ بل گلگت بلتستان میں نہیں آیا لیکن سرمایہ کاری کانفرنس میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اس خطے کا حوالہ دیا تھا کہ وہاں ’اتنی معدنیات ہیں کہ پاکستان پر سارا قرضہ اتار جائے۔‘ اس پر مقامی سطح پر سخت رد عمل آیا ہے اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے میں کچھ نہیں ہو رہا۔ اس صورت حال سے مجموعی حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے صوبوں کو سنے اور باہمی افہام تفہیم سے آگے بڑھے