اردو میں موضوعاتی شاعری محدود پیمانے پر ھوئی ھے۔ ھمارے شعراء نے ماں کے حوالے سے دو چار نظمیں تو ضرور لکھی ہوئی ھیں،لیکن اس موضوع پر پوری کتاب جتنا شعری مواد اکٹھا یا ورطہءتحریر لانا ایک مشکل ترین کام ھے۔نثر میں تو اس کے بہت سے نمونے اور کتابیں ملتی ھیں،لیکن شاعری میں ایسا ممکن نہیں۔منور رانا کو خدائے بزرگ و برتر نے یہ ھنر ودیعت کر رکھا تھا کہ انھوں نے ماں کے لئے نہ صرف شاعری کی ،بل کہ نہایت عمدہ،منفرداور خوبصورت شاعری کی بنیاد پر دنیائے ادب میں چھائے رہے۔بھارت کے اس ممتاز شاعر کی بہت سی شاعری کا حصہ ماں کے حوالے سے تھا،انھوں نے اس موضوع پر درجنوں شعر کہے۔یہ سلسلہ ان کی وفات کے بعد ختم تو ھو گیا لیکن ان کے کہے گئے شعر امرھو گئے،جو دنیائے ادب کو ھمیشہ ان کی یاد دلاتے رھیں گے۔ان میں سے ایک شعر تو میڈیا پر بھی گردش کرتا ھے اور پچھلے دنوں ایک پاکستانی ڈرامے میں بھی اس کی گونج سنائی دی ،آپ بھی پڑھیں۔۔۔۔
کسی کو گھر ملا حصے میں یا کوئی دکاں آئی
میں گھر میں سب سے چھوٹا تھا ،مرے حصے میں ماں آئی
یقینی طور پر منور رانا صاحب کو اپنی ماں سے بہت محبت ھو گی۔ماں کے حوالے سے ان کے چند شعر اور دیکھیں کہ ماں ھی ایک ایسی ھستی ھے ،جس کی لازوال محبت کا دنیا میں کوئی اور مقابلہ نہیں کر سکتا۔آئیے چند شعر دیکھیں۔۔۔
لبوں پہ اس کے کوئی بددعا نہیں ھوتی
بس ایک ماں ھے جو مجھ سے خفا نہیں ھوتی
کل اپنے آپ کو دیکھا تھا ماں کی آنکھوں سے
یہ آئینہ ھمیں بوڑھا نہیں بتاتا ھے
چلتی پھرتی ھوئی آنکھوں سے اذاں دیکھی ھے
میں نے جنت تو نہیں دیکھی ھے،ماں دیکھی ھے
اس طرح میرے گناھوں کو وہ رو دیتی ھے
ماں بہت غصے میں ھوتی ھے تو رو دیتی ھے
جب بھی کشتی مری سیلاب میں آجاتی ھے
ماں دعا کرتی ھوئی خواب میں آجاتی ھے
ابھی زندہ میری ماں مجھے کچھ بھی نہیں ھو گا
میں جب گھر سے نکلتا ھوں دعا بھی ساتھ چلتی ھے
میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتابیں پھاڑ دیں
صرف اک کاغذ پہ لکھا لفظ ماں رھنے دیا
یہ ایسا قرض ھے جو میں ادا کر ھی نہیں سکتا
میں جب تک گھر نہ لوٹوں میری ماں سجدے میں رھتی ھے
یہ تمام اشعار اس موضوع کے اردگرد گھومتے ھیں۔منور رانا کی شاعری قاری کواپنی طرف کھینچتی ھے۔ان کے دیگر موضوعات بھی انوکھے اور منفرد ھیں ۔
منور رانا 26 نومبر 1952ء کو اتر پردیش کے شہر رائے بریلی میں پیدا ھوئے اور 14 جنوری 2024ء کو لکھنؤ میں وفات پا گئے،جہاں سے ان کی شاعری بام عروج تک پہنچ گئی۔
منور رانا کے بہت سے رشتہ دار تقسیم کے وقت پاکستان آگئے لیکن منور اپنے والدین کے ساتھ بھارت میں رھے۔منور نے ابتدائی تعلیم شعیب ودھیالیہ اور پھر گورنمنٹ انٹر کالج بریلی سے حاصل کی۔بعدازاں لکھنوء آئے اور پھر وھیں کے ھو کر رہ گئے۔منور رانا کو لکھنوء کی خاص ادبی فضا نے پروان چڑھایا لیکن اس کے علاؤہ ان کے دادا مرحوم سید صادق علی بھی انھیں بچپن میں دوسرے شعراء کی غزلیں سنایا کرتے تھے۔زمانہء طالب علمی شاعری اور فلم ان کی کمزوری بن چکے تھے۔وہ فلمی اداکاروں خاص طور پر شترو گھن سنہا کی نقل کرنے میں بہت مہارت رکھتے تھے۔انھوں نے ایک فلم کی کہانی اور ڈرامہ بھی لکھا۔اس کے علاؤہ کچھ ڈراموں میں اداکارہ کے جوھر بھی دکھائے،جو ان کا بچپن کا شوق بھی تھا۔تاھم ان کی شہرت کی اصل وجہ شاعری ھی ھے۔منور رانا کی شاعری میں حقیقت پسندی ،عصری مسائل اور رشتوں کا تقدس انتہائی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ھے۔خاص طور پر ماں کے رشتے کو جو احترام انھوں نے اپنے لفظوں میں دیا ھے،اس کی اردو شاعری میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔بقول انور جلالپوری،،منور نے اپنی حیثیت خود بنوائی۔خدا نے ان کے علمی شعور میں ایسی صفت بخش دی ،جو خس وخاشاک کو زعفران اور سوکھی ھوئی لکڑی کو عود کے مقابل ٹھہرا دے،،
بقول خالد محمود،،ماں پر ان کے اشعار ان کی شناخت بن گئے،،
منور رانا کی شعری کتب میں سرحد،مہاجرنامہ،ماں،نیم کے پھول ،کہو ظل الٰہی سے،سفید جنگلی کبوتر اور نثری کتاب بغیر نقشے کا مکان شامل ھیں۔منور رانا کو ان کی زبردست شاعری کی وجہ سے کئی ایوارڈز سے نوازا گیا ،جن میں سرکاری و غیر سرکاری دونوں طرح کے اعزازات شامل ھیں۔
منور رانا کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ وہ عوام اور خواص دونوں کے شاعر تھے۔شاعری میں زبان و بیان اور تخلیقی مہارت ان کا خاصا تھا۔آخر میں ان کے چند اور خوب صورت شعر ملاحظہ کریں۔۔۔
مٹی کا بدن کر دیا مٹی کے حوالے
مٹی کو کبھی تاج محل میں نہیں دیکھا
گھر میں رھتے ھوئے غیروں کی طرح ھوتی ھیں
لڑکیاں دھان کے پودوں کی طرح ھوتی ھیں
پھر کربلا کے بعد دکھائی نہیں دیا
ایسا کوئی بھی شخص کہ پیاسا کہیں جسے
فرشتے آکر ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ھیں
وہ بچے ریل کے ڈبوں میں جو جھاڑو لگاتے ھیں
بچوں کی فیس ،ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
سو جاتے ھیں فٹ پاتھ پہ اخبار بچھا کر
مزدور کبھی نیند کی گولی نہیں کھاتے
پھینکی نہ منور نے بزرگوں کی نشانی
دستار پرانی ھے مگر باندھے ھوئے ھے
ایک آنسو بھی حکومت کے لئے خطرہ ھے
تم نے دیکھا نہیں آنکھوں کا سمندر ھونا
اللہ پاک رانا صاحب کی مغفرت فرمائیں،آمین