برگیڈیر ریٹائرڈ ڈاکٹر وحیدالزماں طارق کی زیر صدارت پنجابی کے شاعر اعظم منیر کی تصنیف شوکراں نال وسیبا کی تقریب رونمائی
منشا قاضی حسب منشا
مجھے اردو زبان کے ادیبوں، شاعروں ، انشاء پردازوں، مقرروں اور خطیبوں کی گفتگو سنتے ، ان کو بولتے بڑی مسرت محسوس ہوتی ہے اور میں لطف اندوز ہوتا ہوں اور حظہ اٹھاتا ہوں اردو زبان بڑی لذیذ زبان ہے اور اپنی ماں بولی زبان پنجابی عام زندگی میں بولتا رہتا ہوں لیکن اعظم منیر کی پنجابی زبان جو متعارف کرائی گئی ہے وہ اپنی مختصر بحر میں شاعری نہیں ساحری ہے ، اور آج جدید عہد کے ابلاغی ویپن نے اسے فلک الافلاک تک پہنچا دیا ہے میں بے بہا ممنون احسان ہوں محترمہ پروفیسر ڈاکٹر عابدہ بتول کا وہ ایک ایسی نابغہ روزگار عالمہ ، فاضلہ ، ادیبہ اور محقق دانشور خاتون ہیں جن کی سادگی اور گفتگو کی روانی میں اخلاص و محبت کی چاندنی بکھرتی ہوئی دکھائی دیتی ہے ، موصوفہ نے فنون لطیفہ کی ہر اصناف سے انصاف کیا ہے عابدہ بولتی نہیں موتی رولتی ہے اس نے ادیبوں ، شاعروں، انشاء پردازوں کے درمیان ایک خوبصورت رواداری کی باد بہاری چلائی ہوئی ہے ہر ایک ان کی گفتگو کی جستجو میں اپنی آرزو کو جگا دیتا ہے مجھے پنجابی زبان سے شغف ہوتا چلا جا رہا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عربی کے بعد پنجابی زبان امیر ترین زبان ہے یہ سات ہزار سال پرانی زبان ھے جس میں آپ آسانی سے اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں اور آسانی محسوس کرتے ہیں ، اس تقریب کی صدارت کی کرسی پر اس ہستی کو میں نے جلوہ افروز دیکھا جو کئی زبانوں پر عبور رکھتی ہے، فارسی بولتے ہیں تو سعدی کی شیرینی اور حافظ کی رنگینی مزہ دیتی ہے ، انگریزی اردو ، عربی یہ ساری زبانیں برگیڈیئر وحید الزماں طارق کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی ہیں ، لیکن میں نے انہیں پنجابی زبان کے حوالے سے کبھی نہیں سنا تھا ، لیکن اعظم منیر کے ساتھ ان کا تعلق خاطر ایک طویل عرصے پر محیط ہے اور وہ اعتراف کرتے ہیں کہ اعظم منیر نے لاہور میں انہیں متعارف کرایا ہے یہ ان کی عظمت ہے یہ بہت بڑے انسان کی عظمت کی نشانی ہے کہ وہ چھوٹوں کو بڑا بنا دیتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ بقول مختار مسعود کے کہ آبشار کی مانند ہوتے ہیں جو بلندیوں سے یہ کہتی ہوئی نیچے آ رہی ہوتی ہے کہ اگر آپ لوگ میری سطح تک بلند نہیں ہو سکتے تو میں خود ہی نیچے اتر کر تمہاری کشت ویران کو سیراب کرتی ہوں صدارتی کرسی پر جلوہ افروز برگیڈیئر ریٹائرڈ ڈاکٹر پروفیسر وحید الزماں طارق اس گئے گزرے دور میں اچھے وقتوں کی حسین و جمیل نشانی ہیں آپ سکوت و شگفتگی کا ایک حسین امتزاج ہیں ، میں نے آپ کو اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش دیکھا ہے لیکن جب آپ بولتے ہیں تو شاخ گفتار سے رنگا رنگ پھول توڑتے چلے جاتے ہیں ، یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ماہ جبیں خرام ناز سے گل کترتی چلی جا رہی ہو، انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ آپ کی ذات گرامی پر سوالات کرتا چلا جائے اور اپ یوں ہی گلفشانی گفتار میں مصروف رہیں،
فقط اسی شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
برگیڈیر ریٹائرڈ ڈاکٹر وحید الزماں طارق نے کھل کر کہا کہ میں جب سے لاہور آیا ہوں اعظم منیر میرے ساتھ کھڑے ہیں سامعین میں سے خاکسار نے کہا کہ اعظم منیر کے ساتھ ساتھ ہمارے ہمدم و دم ساز جناب راؤ محمد اسلم خان بھی ایستادہ ہیں اور آپ کے دلدادہ ہیں ، حقیقت یہ ہے کہ برگیڈیر ریٹائرڈ ڈاکٹر وحید الزماں طارق کی ذات گرامی اپنے بے شمار اوصاف حمیدہ کی وجہ سے اتنی ہردلعزیز ہے کہ ہر کوئی انہیں اپنا ہی سمجھتا ہے اور وہ سب کے ہیں ، میں نے ایک برگیڈیئر کو اتنا عاجز ، اتنا انکسار کا پیکر متحرک نہیں دیکھا ، مولائے کریم برگیڈیئر ڈاکٹر وحید الزماں طارق کو سلامت رکھے وہ محبت کرنے والی شخصیت ہیں گو محبت اندھی ہوتی ہے لیکن اس کی آنکھیں بڑی حسین ہوتی ہیں اسے پوری کائنات حسین نظر آتی ہے،
ان تمام محاسن کے ساتھ جب چشتی میلاد ہال میں داخل ہوتے ہیں تو انسان مؤدب ہو جاتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ یہاں کتنی ہی سیرت النبی کانفرنس پر تقاریر ہوئیں ہوں گی ، میلاد کانفرنسیں ہوئیں ہوں گی ، ایک ایسا خوبصورت ماحول ہال میں داخل ہوتے ہی انسان بے قابو ہو جاتا ہے اور سانس روکنا پڑتی ہے کیونکہ
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگہہ شیشہ گری کا
مجھے یہاں خالق چشتی صاحب نے بتایا کہ یہ میرا ہال ہے ہم نے کہا کہ ہمارا بھی یہی مستقبل ہے وہ ڈھونڈنے کے لیے آئے ہیں ، محترمہ پروفیسر ڈاکٹر عابدہ بتول نے ہمارا جس طرح خیر مقدم کیا وہ ادا مرتے دم تک یاد رہے گی عوام دوست پارٹی کے رہنما چوہدری جہاں زیب کو پورا جہاں زیب و زینت میں آراستہ اور حسن و جمال میں پیراستہ نظر آتا ہے کیونکہ ان کے اندر ایک خوبصورت انسان موجود ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ خوبصورت عادتوں اور دلفریب اداؤں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں ، فلک شیر وٹو ان کے محبوب دست راست اور حقیقی فلاح و بہبود کے جذبات سے سرشار ہیں اور یہی سرشاری چوھدری جہاں زیب کی متاع گراں مایہ ہے ، بین الاقوامی شہرت یافتہ موٹیویشنل سپیکر جناب راؤ محمد اسلم خان جو آنکھوں سے نہیں دماغ سے دیکھتے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آنکھیں تو صرف گھورتی ہیں دماغ دیکھتا ہے ، ملٹن، ہومر اور ہیلن کیلر یہ لوگ دیکھ تو نہیں سکتے تھے تو پھر انہوں نے وہ کون سی آنکھ تھی جس سے وہ دیکھ کر بڑے بڑے کام کر گئے جو آنکھوں والے نہیں کر سکے، معلوم ہوا دماغ دیکھتا ہے ، پاکستان بننے سے