“صاحب کمال” لوگ اب رہے نہیں ،پائیدار لوگوں کی جگہ اب بے ہنر“بونے ،،آگئے اور ہر شعبے کو زوال کی طرف لے گئے ،سیاست ہی کو لے لیں ,بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خاں جیسے پائیدار رہنمائوں نے بونے سیاسی ٹولے کی تربیت کرنے کا بھی بیڑہ اٹھائے رکھا ،اور اسی عہد کے سیاسی رہنمائوں نے سیاست میں افہام وتفہیم کی طرح ڈال دی ،مذاکرات سے مفاہمت کے در کھولے جاتے رہے ،بلکہ اتحاد کی سیاست کو رواج دیکر قومی مفاد کو مقدم رکھنے کی روایت کو آگے بڑھایا گیا ،حقیقی جمہوریت کے احیا کی خاطر سیاسی بصیرت رکھنے والوں کی جدوجہد تاریخ ساز رہی ،دو بڑی متحارب سیاسی جماعتوں پیپلزپارٹی کے ساتھ مسلم لیگ ن کے “مٽیاق جمہوریت ،،کے نام سے ہونیوالے معاہدے کی دونوں طرف سے اب تک لاج رکھنے کی کاوشیں طشت ازبام ہیں ،بنیادی نظریاتی اختلاف کے باوجود دونوں جماعتوں کے مابین اب تک بہترین ورکنگ ریلیشن شپ کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا ہے ،کچھ تحفظات تو بہرحال رہتے ہیں جنہیں وقتا فوقتا دور کرنے کی گنجائش ہوتی ہے ۔سیاست میں چونکہ حرف آخر کچھ نہیں ہوتا اسی بات پر مخالفین کے ساتھ قومی مفاد کے نام پر مفاہمت کے دروازے کھولنا وقت کا تقاضا رہا ہے ۔قومی مفاد کے معنی ومفہوم ہر سیاسی جماعت نے اپنی ضروریات ومفادات کے تحت نکالے ہیں ،کسی سیاسی جماعت کے لئے تمام سیاستدانوں کو ساتھ لیکر چلنا ہی قومی مفاد ہے تو دوسری طرف عوام کے نام پر ریاست کے ساتھ تصادم ،گھیرائو جلائو اور قومی املاک پر حملوں کو قومی مفاد قرار دیا جاتا ہے ،پاکستان جیسے اسلامی فلاحی ملک میں آخرالذکر نظریہ کی سیاست کو وقتی طور پر پذیرائی ملنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ انہیں عوامی حمایت حاصل ہے ،عوام کی اکٽریت تو طویل عرصے سے دلبرداشتہ ہوکر سیاسی ہنگام سے دور ہے ،عوام کے سامنے ہوشربا مسائل ہیں ،جن سے نکلنے کی خاطر وہ حالات سے برسر پیکار ہیں ،عمیق سیاسی جوڑ توڑ سے انہیں کوئی سروکارنہیں،درحقیقت عوام کو اپنے مسائل ہی سےفرصت نہیں ،ان حالات میں کچھ مایوس نوجوانوں کو گمراہ کرنے کیلئے مفاد پرست ٹولے نے سوشل میڈیا پر پروپگنڈا مہم چلا رکھی ہے ،المیہ یہ ہے کہ سیاست میں شرارت اور تخریب کی آمیزش نے صورتحال گھمبیر بنا دی ہے یہ بات تو اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ سیاست کے نام پر شرپھیلانے والوں کا حب الوطنی اور قومی مفاد سے دور کا بھی واسطہ نہیں ،صرف اقتدار کا حصول ہی انکے سامنے سب سے مقدم رہا ہے اور اقتدار حاصل کرنے کا مقصد لوٹ مار کے سوا کچھ نہیں ،اقتدار میں واپسی کے لئے ہر حربہ آزمایا جا رہا ہے ،یو ٹرن پہ یو ٹرن لینے کی نئی رویت ڈالی جارہی ہے ،صبح کچھ دوپہر کو کچھ اور شام کو انکا بیانیہ کچھ اور ہی ہوتا ہے بقول شاعر !
دل میں کچھ ذہن میں کچھ اور زباں پر کچھ تھا
ہم نے سیاست کے یہاں ڈھنگ نرالے دیکھے
دوسری طرف دو بڑی جماعتوں کے اتحاد سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت سے مسلم لیگ ن کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا ہی قومی مفاد ٹھہرا ہے جس کی خاطر اب اس نے ریاست کیساتھ تصادم پر آمادہ لوگوں کو بھی قومی دھارے میں لانے کی خاطر مذاکرات کے دروازے کھول رکھے ہیں۔اب تک حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی کہانی نیا موڑ لے چکی ہے کہ حکومت نے جس خلوص اور فراخدلی سے مذاکرات کا ماحول بنایا ،اپوزیشن نے اسے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے غارت کر دیا ،مذاکرات جاری رہنے کے دوران ہی کچھ عدالتی فیصلے آنے پر اپوزیشن نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کرکے قوی مفاد میں مفاہمت کا بیانیہ چھوڑ کر پھر سے ہٹ دھرمی والا رویہ اختیار کرلیا ،سیاست اور جرم کو الگ رکھنا بھی قومی مفاد کا تقاضا ہے ،اس پر اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی کا اب نیا بیانیہ یہ سامنے آیا ہے کہ وہ حکومت سے ایگزیکٹو آرڈر سے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ حکومت سے یہ کہتے ہیں کہ“عدالتوں پر پریشر کو ختم کیا جائے”۔پی ٹی آئی کا مذاکرات سے گریز کیلئے یہ بیانیہ عجیب ہے ۔عدالتیں آزاد ہیں،دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ٹھوس دستاویزی ٽبوتوں اور ناقابل تردید شہادتوں کی بنیاد پر ملک کے سب سے بڑے مالیاتی کرپشن کیس میں سزائیں سنائی گئی ہیں ،اور اب تک شریک ملزم ملک ریاض کی مزید کرپشن قوم کے سامنے ہے ،ریاست نے ملک ریاض پر ہاتھ ڈال دیا ہے اب ان کا بچنا محال ہے۔ان کی متحدہ عرب امارات (یو اے ای) سے پاکستان کی حوالگی کا عمل مکمل کرکے یہاں مقدمات چلائے جائیں گے، یو اے ای کے ساتھ ملزمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے۔اب کرپشن کو سیاست کے پیچھے چھپانے والی واردات مزید چلنے والی نہیں ،سیاست میں مفاہمت کا اگر باب کھل رہا ہے تو اسے بند کرکے اپوزیشن اپنے پائوں پر خود کلہاڑی مارنے کی غلطی دہراتی رہے گی تو پھر اسکے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ،مفاہمت کا عمل ہمیشہ دوطرفہ ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے یکطرفہ سے تو پھر زندگی کا حسن بھی نہیں رہتا۔