26آئینی ترامیم کی منظوری،حکومت کا معرکہ قرار ،عوام کو مبارکباد

10

اداریہ

حکومت نے آئین میں ترامیم کا بل سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرواکر صدر کے دستخطوں سے قانون بنادیا ۔اب یہ آئینی ترامیم پاکستان کے آئین کا حصہ بن گئی ہیں ۔حکومت کے اس معرکے کو عوام کی جیت قرار دیا جارہا ہے ۔اب خلق خدا کی سنی جائےگی ،عوام کے منتخب ایوان کو کوئی یرغمال نہیں بناسکے گا ۔اس تناظر میں حکومت اور اسکے اتحادیوں کو بڑی جدوجہد کرنا پڑی ۔ایوان بالا سینیٹ سے 26ویں آئینی ترمیمی بل کی دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظوری کے بعد ایوان زیریں قومی اسمبلی نے بھی اس کی منظوری دے دی۔اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے جاری اجلاس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ترمیم پیش کرنے کی تحریک پیش کی، تحریک کی منظوری کے لیے 225 اراکین اسمبلی نے ووٹ دیے۔اس کے بعد ترمیم کی شق وار منظوری دی گئی، مبینہ طور پر تحریک انصاف کے حمایت یافتہ 4 آزاد ارکین نے آئینی ترامیم کے حق میں ووٹ دیا، ان میں عثمان علی، مبارک زیب خان،ظہورقریشی، اورنگزیب کھچی اور چوہدری الیاس نےترامیم کےحق میں ووٹ دیا۔حکمران اتحاد کے 215 میں سے 213 ارکان نے ووٹ کیا، عادل بازئی کے علاوہ حکمران اتحاد کے تمام ایم این ایز نے ووٹ دیا، اجلاس کی صدارت کے باعث اسپیکر قومی اسمبلی نے اپنا ووٹ نہیں دیا، جے یو آئی (ف) کے 8 ارکان نے ووٹ دیا۔بعد ازاں اسپیکر ایاز صادق نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں 225 ووٹ دیے گئے۔ترمیم کی منظوری کے بعد وزیراعظم شہاز شریف نے ایوان میں مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات کی، انہوں نے ایوان میں موجود بیرسٹر گوہر اور اسد قیصر سے بھی ملاقات کی۔اس موقع پر ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ملک میں لوگ انصاف کیلئے ترس رہے ہیں، یہ ایک تاریخی دن تھا۔ترمیم کی منظوری کے بعد اس پر دستخط کے لیے ایوان صدر میں صبح ساڑھے 8 بجے شیڈول تقریب کا وقت تبدیل کردیا گیا، بل کی قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد صدر مملکت نے گزشتہ روز ہونے والی ایوان صدر میں تقریب کے دوران آئینی ترمیم پر دستخط کردیئے۔آئینی ترمیم کا گزٹ نکالنے کی ہدایت دی گئی ۔ صدر مملکت کے دستخط ہوتے ہی 26 ویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئین کا حصہ بن گئی جس کے ایک ایک حرف کی پابندی پاکستان کے تمام اداروں اور شہریوں پر لازم ہوگئی ہے ۔ قبل ازیں حکومت کو بل کی منظوری کرانے اور اسے قانون بنانے کے لیے 224 ووٹ درکار تھے۔حکمران مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں 111، پیپلزپارٹی کی 69 نشستیں ہیں، ایم کیو ایم پاکستان کی 22، مسلم لیگ (ق) 5، استحکام پاکستان پارٹی (آئی پی پی) کے 4 اراکین ہیں جبکہ مسلم لیگ ضیا، بلوچستان عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک رکن ہے۔حکمران اتحاد کے 3 افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہے، اس طرح یہ تعداد 211 ہے اور جے یو آئی (ف) کے 8 اراکین کی حمایت کے بعد بھی یہ تعداد 219 ہوگی اور حکومت کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئینی ترمیم پاس کروانے کے لیے مزید 5 ارکان کی ضرورت تھی۔تاہم دوتہائی اکثریت سے ہی بل کی شق وار منظوری دی گئی ۔اس سے پہلے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے ایوان میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میری تقریر تنقید کے بدلے نہیں تعریف پر مبنی ہوگی، میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کا بھی تذکرہ تھا، میثاق جمہوریت مشکل میں رہنمائی کے لیے ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین مقدم ہوگا۔قبل ازیں قومی اسمبلی میں آئینی ترامیم کا بل پیش کرنے کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم کی تحریک پیش کی، اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2006 میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ ہوا، اس معاہدے کے بہت سارے نکات پر عمل ہوگیا۔اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ 26 ویں آئینی ترمیم سینیٹ نے دو تہائی اکثریت سے منظور کی۔اس سے پہلے سینیٹ سے بھی دو تہائی اکثریت سے بل پاس کرایا گیا ہے ۔خواجہ آصف نے کہا کہ ہم میثاق جمہوریت کی اصل روح کو بحال کررہے ہیں ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ باعزت طریقے سے ریٹائر ہورہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ میں 26 لاکھ کیسززیرالتوا ہیں، دنیا میں 144 ویں نمبر پر ہے، عدلیہ کے 17، 18 لوگ آسمان سے آئے کہ احتساب نہیں ہوسکتا۔خواجہ آصف کی تقریر کے بعد میاں نواز شریف نے کہا کہ عدلیہ کے ہاتھوں جو دکھ ہم نے اٹھائے ہیں، عدلیہ کے کردار پر شعر ہے، اس کے بعد انہوں نے چند اشعار پڑھے۔بعد ازاں اسپیکر ایازصادق کی صدارت میں قومی اسمبلی کااجلاس دوبارہ شروع ہوا، چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کہا کہ آئینی ترمیم کی منظوری میں سب سے زیادہ کردار فضل الرحمٰن کا ہے، سیاست میں آصف زرداری کے بعد مولانا فضل الرحمٰن کو مانتا ہوں، مولانا فضل الرحمٰن کا اہم کردار ہے یہ تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔مولانا فضل الرحمٰن کا کردار بھی قابل تحسین رہا۔ان حالات میں اب آئین میں 26ویں ترامیم کا مسودہ قانون بن گیا ہے ۔اسکی شقوں پر عملدرآمد سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری تین سینئر ترین ججوں میں سے کی جائے گی،پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کی گئی ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف ،نواز شریف ،فضل الرحمان اور بلاول بھٹو زرداری سمیت اہم حکومتی اور اتحادی رہنمائوں نے اس موقع پر قوم کو مبارکباد پیش کی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.