پہلگام کا واقعہ ابھی پوری طرح سمجھا بھی نہ گیا تھا کہ مودی سرکار اور بھارتی میڈیا نے حسبِ روایت بغیر تحقیق، بغیر ثبوت اور بغیر تدبر کے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ شروع کر دی۔
عقل اور سنجیدگی کا تقاضا تو یہ تھا کہ واقعے کی مکمل تحقیق کے بعد کوئی مؤقف اپنایا جاتا، مگر بھارتی حکومت نے ایک بار پھر بچگانہ عجلت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی پوری قوم کو جنگی جنون کی آگ میں جھونکنے کی کوشش کی۔
سوال یہ ہے کہ ایک ایٹمی ریاست کے وزیر اعظم کی اس طرح کی ناعاقبت اندیشی پر دنیا اعتماد کیسے کر سکتی ہے؟
جب قیادت کا رویہ انتقامی اور غیر ذمہ دار ہو، تو نہ صرف اپنی قوم کا مستقبل خطرے میں پڑتا ہے بلکہ پورے خطے کا امن بھی دائو پر لگ جاتا ہے۔
مودی حکومت کی حکمت عملی درحقیقت کوئی حکمت نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی تماشہ گری ہے، جہاں ہر داخلی ناکامی، ہر معاشی بحران اور ہر سماجی بدحالی کا بوجھ پاکستان پر ڈال کر عوام کی توجہ اپنی نااہلی سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
مگر آج کا دور میڈیا کا ہے، سچ کو زیادہ دیر تک چھپایا نہیں جا سکتا۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ کس طرح بے بنیاد الزامات، جھوٹی کہانیاں اور غیر ذمہ دارانہ بیانیے سے بھارت اپنے عوام کو دھوکہ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت کی پالیسیاں فہم و تدبر کی بجائے جذباتی نعروں اور اشتعال انگیزی پر قائم ہیں۔
یہی رویہ خطے میں کشیدگی کو بڑھا رہا ہے، اور عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
اس کے برعکس، پاکستان نے ایک بار پھر بردباری، اعلیٰ ظرفی اور تدبر کا مظاہرہ کیا ہے۔
ہماری مسلح افواج اپنی بھرپور تیاری کے ساتھ دفاع وطن کے لیے پرعزم ہیں، مگر ساتھ ہی ہم نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ پاکستان جنگ نہیں چاہتا، لیکن اگر جنگ مسلط کی گئی تو اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔
ہمارے سپاہی نعرے نہیں لگاتے، ان کا حوصلہ، قربانی اور پیشہ ورانہ مہارت میدان عمل میں بولتی ہے۔
یہ درست ہے کہ پاکستان اس وقت معاشی مشکلات سے گزر رہا ہے، لیکن جنگیں ہمیشہ بینک بیلنس سے نہیں جیتی جاتیں۔
جنگوں میں اصل طاقت غیر متزلزل عزم، قومی یکجہتی، جذبہ قربانی اور قیادت کی حکمت عملی ہوتی ہے۔
پاکستان کے عوام میں یہ سب کچھ بدرجہ اتم موجود ہے۔
اگر بھارت یہ سمجھتا ہے کہ اشتعال انگیزی اور جنگی نعروں کے ذریعے پاکستان کو مرعوب کر لے گا تو یہ اس کی بھول ہے۔
پاکستان امن کے زیتون کا علمبردار بھی ہے اور ایٹمی قوت کا محافظ بھی۔
ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے، مگر اپنی آزادی اور وقار کے دفاع کے لیے ہم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
آج وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہوش مندی ہے۔
بھارت کو سمجھ لینا چاہیے کہ تماشہ گری سے نہ تو مسائل حل ہوتے ہیں اور نہ تاریخ معاف کرتی ہے۔
سیاست جب تماشے میں بدل جائے تو قوموں کا انجام تماش بینوں کے ہجوم میں گم ہو جاتا ہے۔
سیاست جب تماشہ بن جائے تو فیصلے عقل سے نہیں، مجمع کے شور سے ہوتے ہیں۔ اور شور کبھی تعمیر نہیں کرتا، صرف بربادی کا پیش خیمہ بنتا ہے۔