بعض لوگ پیدائشی بے وفا ہوتے ہیں؛ اُن سے جتنی مرضی وفا داری کر لو، آخر میں کہنا پڑتا ہے “ہم وفا کر کے بھی تنہا رہ گئے۔”
یوں ہی بعض افراد پیدائشی وفا دار ہوتے ہیں؛ جن سے جتنا مرضی بے رُخی کر لیں، وہ آخر تک چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ پس ثابت ہوا اعلی ظرف انسان ہی وفا دار ہوتے ہیں، بھلے کسی بھی خاندان سے ہوں۔
وفاداری کے معاملے میں عورتیں مردوں کی نسبت زیادہ حساس ہوتی ہیں؛ ان کا ماننا ہوتا ہے کوئی رشتے دار کچھ دے یا نہ دے؛ وفا ضرور کرے، ورنہ ان کے ارمان تاحیات آنسوؤں میں بہہ جاتے ہیں اور کبھی کبھی وہ اسی تنہائی میں جب اکیلی بیٹھی کرب سے گزرنے لگتی ہیں تو ان وحشت بھرے لمحات کو دل کی آوارگی سمجھ کر پروین شاکر کی طرح گنگنانے لگتی ہیں۔
رواں صدی میں اب خیر سے کہیں بھی پہلی جیسی وفا والی بات نہیں رہی ہیں؛ لوگوں کے رابطے مصنوعی طرز پر استوار ہو چکے، ملنا ملاپ کم ہو گیا۔ لوگ سٹیٹس لگا کر ایک دوسرے پر دل کا غبار نکالتے ہیں، فیس بک پر پوسٹ لگا کر دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، لیکن آمنے سامنے بیٹھ کر دو منہ پر کھری کھری سُنانے والی باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔ آج کل تو سب سوا سیر ہیں؛ جس کا جہاں بس چلا، وہی شیر ہے۔ پہلے جیسا احترام، ہلہ گلہ اور گلہ شکوہ کر کے آخر میں راضی ہو جانا، اب کہیں نظر نہیں آتا۔ یار لوگوں کی ملاقاتیں زیادہ سے زیادہ راہ چلتے یا مساجد تک محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے ایک بیٹھک میں جانے کا اتفاق ہوا، تو دیکھا اس کا مالک اکیلا بیٹھا موبائل پر پرسوز گانے سُن رہا ہے۔ میں نے دعا و سلام کے بعد پوچھا، “جناب، آپ کے ڈیرے پر تو بڑی رونق ہوتی تھی، کیا وجہ ہے آج کل تنہائی کا شکار ہو گئے؟”
وہ عرض گزار ہوا: “بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے بیٹھک سے گھوڑوں والے، جواری اور منشیات کرنے والے بھگا دیے ہیں؛ تو پیچھے ہم ہی بچے۔ کیا کرنا؟ ایسی محفلوں کا جس میں شر ہی شر ہو۔ جب ہم اچھے طریقے سے بات چیت اور ایک دوسرے کی رہنمائی نہیں کر سکتے، تو ایسے جواری اور منشیات کے عادی افراد کسی کنویں، ہوٹل یا ڈیرے پر بھلے لگتے ہیں۔” یہ سن کر مجھے خوش گوار حیرت کے ساتھ ساتھ نہایت افسوس بھی ہوا کہ ہماری اکثر بیٹھکوں میں لوگوں کو سوائے بربادیِ وقت کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
بعض خواتین بڑی شاطر ہوتی ہیں؛ انھیں پہلے گھر پھر سسرال سب کی توجہ حاصل کرنے کا گُر آتا ہے۔ وہ جلیبی جیسی سیدھی ہوتی ہیں، میٹھی اس قدر کہ ان کی شیریں گفتگو سے بد مزاج ترین انسان چند لمحوں میں قائل ہو جائے اور ٹیڑھی اس قدر کہ گھی کو الٹے ہاتھ سے بھی نہ نکالنے دیں۔
اسی طرح بعض مرد بھی سمندر کی تہہ میں غوطے لگا کر گہری سوچ میں غرق رہتے ہیں۔ ان کے چہرے پر کہیں بھی سکون نام کی کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی ؛ یوں لگتا ہے جیسے ان کا الائچی کا جہاز ڈوب چکا ہو، جس کی وجہ سے پہلے ان کا بدن جگہ جگہ سے تھرتھراتا ہے، پھر کپکپاتا اور آخر میں گھبراتا ہے۔
ایسے ہی جب ان کو کسی عورت سے عشق ہو جاتا ہے تو وہ جوگی بن جاتے ہیں؛ اب وہ عشق میں شبانہ روز گنگناتے ہیں، جیسے ہی وہ گنگناتے ہیں، ان پر وجد طاری ہو جاتا ہے، اب وہ بے خودی میں ناچنے لگتے ہیں، جسے “ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا” کہا جاتا ہے۔
یہ ٹیڑھے کیوں بنتے ہیں؟ میں نے بہت سے مردوں کو دیکھا جو صاحب ثروت ہونے کے باوجود اپنی عادت نہیں بدلتے؛ وہ بچھو کی طرح سب کو کاٹتے رہتے ہیں۔ ان کی مثل کلب کی دم جیسی ہے، جسے سو سال بھی رکھا جائے تو سیدھی نہیں ہوتی۔ ایسے ہی حالات کچھ آج ہمارے ہو چکے ہیں۔ جن کو ہر وقت اپنی ہی فکر لگی رہتی ہے: “کہاں سے آئے گا؟ کیسے کھائیں گے؟ بیوی بچوں کا کیا بنے گا؟ ملاوٹ، لوٹ مار اور دھوکا دہی نہ کی تو کام کیسے چلے گا؟ گھر کا پہیہ کون چلائے گا؟”
اسی بد عنوانی، بے وفائی اور خود غرضی نے نسل در نسل ہمیں آج اس دوہرائے پر لاکھڑا کیا کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی کوئی خوش نہیں۔ خوشیاں تو دراصل محبتیں، رزق، اچھائیاں بانٹنے میں مخفی کر دی گئی تھیں، مگر افسوس ہم نے انھیں خود غرضی، بے وفائی اور ایک دوسرے کو گرانے میں تلاش کیا۔ اپنے اور بچوں کے رزق کے لیے تو جانور بھی ہم سے ہزار گنا بہتر انداز میں جیتے ہیں۔ لُطف تو تب ہوتا جب ہم دوسروں کے لیے جیتے اور انھیں بھی خُوشیوں میں شریک کرتے۔