گرین پاکستان انیشییٹو (GPI) ایک گیم چینجر

تحریر : فیصل زمان چشتی

2

ہم پہلے دن سے یہ سنتے آرہے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس میں تقریبا ستر فیصد آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہے اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام موجود ہے پاکستانی زرعی اجناس اپنے معیار کی وجہ سے پوری دنیا میں ایک مقام رکھتی ہیں۔ لیکن ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود ملک کو اکثر زرعی اجناس جیسا کہ گندم، دالیں اور آئل سیڈز وغیرہ کی قلت کا سامنا رہتا ہے اور ایک کثیر زرمبادلہ ان کی ادایئگیوں پر خرچ ہوتا ہے جس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کا توازن ادائیگی خراب ہوتا ہے۔ اربوں ڈالر ہمارے ملک سے دوسرے ملکوں کو چلے جاتے ہیں اور قوم ہمیشہ یہ سوچتی ہے کہ کیا وجوہات ہیں کہ ایک خالص زرعی ملک ہونے کے باوجود ہم گندم اور آئل جیسی بنیادی ضروریات بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں۔
اسی بنیادی اور دیرینہ مسئلے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان اور پاک فوج نے ملک میں گرین پاکستان انیشیٹو اور جدید کارپوریٹ فارمنگ کو متعارف کروایا ہے۔
پانی کے مسائل، غیر متوقع موسمی تبدیلیاں اور کیڑے مکوڑوں کی وجہ سے فصل خراب ہوتی ہے اور زمین کی عدم دستیابی کی وجہ سے بھی مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ پاکستان کے کل رقبے کا ایک تہائی زیر کاشت ہے اور تقریبا دوتہائی رقبہ کاشت نہ ہونے کہ وجہ سے بنجر پڑا ہے۔ گرین پاکستان منصوبہ کے تحت 4.8 ملین ایکڑ رقبے کو زرعی مقاصد کے لیے منتخب کیا گیا ہے جس میں چاروں صوبوں سے زمین کا انتخاب کیا گیا ہے تاکہ تمام صوبے اس منصوبے سے مستفید ہو سکیں۔ حکومت پاکستان اور پاک فوج کے تعاون سے اس منصوبے کے تحت پہلے پنجاب اور پھر ملک بھر میں جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے تحت بنجر زمین کو زیر کاشت لایا جائے گا۔ اس کے بعد کارپوریٹ فارمنگ، معیاری بیج، جدید آبپاشی، جدید مشینری، کسانوں کی معاونت اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے ذریعے زیادہ منافع بخش پیداوار حاصل کی جاسکے گی۔ سیڈ انڈسٹری، پیسٹاسائڈ انڈسٹری اور کھاد کی انڈسٹری میں انقلاب آئے گا۔ اس منصوبے کے تحت چاروں صوبوں میں مقامی لوگوں کو روزگار کے لاکھوں مواقع میسر آئیں گے۔ گرین پاکستان انیشیٹو کے تحت چولستان بہاولپور میں تقریبا پچاس ہزار ایکڑ سے زائد رقبے کو قابل کاشت بنانے کا کام جاری ہے جس سے زراعت کے شعبے میں 30 سے 40 بلین ڈالر کا منافع کمایا جاسکے گا اور مقامی افراد کو اس سے بہت زیادہ فوائد حاصل ہو سکیں گے۔ آبی کھالے، سڑکیں، زرعی انفراسٹرکچر اور ورکشاپس کے قیام سے معاشی حالات بہت بہتر ہو جایئں گے۔ گندم، کپاس اور تیل دار اجناس کو برآمد کر کے کثیر منافع کمایا جا سکے گا۔ جدید طرز کاشت اور جدید ٹیکنالوجی سے فی ایکڑ پیداوار کو بڑھایا جائے گا۔
بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے کے لئے حکومت پاکستان اور پاک فوج کی مشترکہ کاوشیں لائق صد تحسین ہیں اور یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جو حقیقت میں سبز انقلاب برپا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس سے ہم نا صرف زراعت کے شعبے میں خود کفیل ہونگے بلکہ معیشت اور عوام کو براہ راست فوائد حاصل ہوں گے اس کے ساتھ خوشحالی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔
سیلاب کے لئے ڈیموں کی تعمیر اور فلڈ کنٹرول کے لئے نئی نہروں کی تعمیر کی جائے گی۔ تھر، تھل اور کچی کینال سمیت سٹریٹیجک آبپاشی کے منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔
اسی سلسلے میں 14 فروری 2025 کو چیف آف آرمی سٹاف اور وزیر اعلی پنجاب نے چولستان کا دورہ کیا اور وزیر اعلی پنجاب نے کنڈائی کے مقام پر سمارٹ ایگری فارم ، گرین ایگری مالز اور ایگری ریسرچ سہولت سینٹر کا افتتاح کیا۔ اس موقع پر زرعی ماہرین، سائنسدانوں، کسانوں، زمینداروں اور مقامی افراد کو اس منصوبے کے متعلق بڑی تفصیل سے بتایا گیا۔ گرین پاکستان انیشیٹو کا یہ منصوبہ یقینا چولستان اور دیگر علاقے جن میں یہ منصوبہ شروع کیا جارہا ہے کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہوگا اور ان پسماندہ علاقوں کے مکینوں کی زندگی میں انقلاب برپا کردے گا۔ ایسے اقدامات سے پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا اور ایسے عوام دوست زرعی انقلابی منصوبوں کے تحت ان علاقوں میں زندگی بالکل بدل جائے گی جس سے خوشحال پاکستان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے گا۔ پاکستان زندہ باد۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.