صدا بصحرا
رفیع صحرائی
مولوی صرف گفتار کا غازی نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سے ہمارے علمائے کرام نے جہاد کا فتویٰ دیا ہے ہمارے چند دانشوروں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ فتویٰ اور اعلان ان کے مفادات پر کاری ضرب لگا گیا ہے۔ ہمارے ایک سیاسی دانشور نے اپنے ایک ٹویٹ میں علمائے کرام پر باقاعدہ طنز کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ جہاد کا اعلان کرنے والے سو بڑے مولوی صاحبان اور علمائے کرام کو غزہ پہنچانے کے اخراجات برداشت کریں گے۔ یاد رہے کہ گفتار کے غازی یہ وہی سیاسی دانشور ہیں جو کسی دور میں قوم کو آزادی دلانے کے مجاہد ہوا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ احاطہ عدالت سے باہر موصوف نے میڈیا کے نمائندوں کے سامنے ٹیپو سلطان کی طرح بہادری کا دعویٰ کرتے ہوئے جب عدیم ہاشمی کا یہ شعر پڑھا
مفاہمت نہ سکھا جبرِ ناروا سے مجھے
میں سربکف ہوں لڑا دے کسی بلا سے مجھے
تو انہیں سامنے سے پولیس کے تین چار جوان آتے دکھائی دیئے۔ پھر جو موصوف وہاں سے سرپٹ بھاگے تو احاطہ کچہری میں ہی پہنچ کر دم لیا۔ تب تک ان کا سانس بری طرح پھول چکا تھا۔ بات کرنی مشکل ہو رہی تھی۔ چہرے پر ہوائیاں اور آنکھوں میں خوف کی پرچھائیاں صاف نظر آ رہی تھیں۔ عدالت کا ختم ہو گیا، شام ہوئی، پھر رات ہو گئی مگر سربکف مجاہد احاطہ عدالت سے باہر آنے کو تیار نہ تھے۔ پھر جب بلاؤں سے لڑنے کے مدعی گرفتار ہوئے تو چند دن بھی جبرِ ناروا کا مقابلہ نہ کر سکے اور پوری دنیا نے انہیں ٹی وی چینلز پر مراجعت کرنے والوں کی پچھلی قطار میں منہ چھپانے کی کوشش کرتے دیکھا۔
مولوی کی تاریخ سے ناواقف حضرات اسے محض گفتار کا غازی سمجھ کر طنز کر رہے ہیں۔ میں انہیں مشورہ دوں گا کہ اگر مولویوں کی جرات اور بہادری دیکھنی ہو تو بھٹو کے خلاف ان کی تحریکِ نظامِ مصطفیٰ کو دیکھ لیں جب مسجدوں اور مدرسوں میں جوتوں سمیت گھس کر پولیس ان پر لاٹھیاں برسا کر لہو لہان کرنے کے بعد گرفتار کر لیتی تھی مگر وہ پیچھے نہ ہٹے تھے۔ تحریکِ ختم نبوت میں مولوی کے کردار کا مطالعہ کریں۔
اگر آپ ماضی میں چلے جاٸیں تو متحدہ برِصغیر کے مسلم دور میں مولوی صاحب کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ انگریز کی آمد سے پہلے لفظ ”مولوی“ معاشرے میں اتنی توقیر کا حامل تھا کہ بہت بڑے علماٸے کرام اپنے نام کے ساتھ ”مولوی صاحب“ کا اضافہ بہت فخر سے کیا کرتے تھے۔
انگریز کو مولوی سے شدید نفرت تھی۔ نفرت کے ساتھ ساتھ انگریز مسلمان مولوی سے خوفزدہ بھی تھا۔ انگریز کی مولوی سے نفرت کی ابتدا 1857 کی جنگِ آزادی میں جامع مسجد دلّی سے جہاد کے اعلان سے شروع ہوٸی تھی۔ مولوی نے انگریزوں سے معرکے کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا تھا۔ انگریزوں کی تاریخ پر بھی گہری نظر تھی۔ وہ جانتے تھے کہ 1803 میں شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ان کے خلاف جہاد کا فتویٰ دیا تھا۔ 1857 کی جنگِ آزادی کی قیادت علماٸے کرام ہی کر رہے تھے۔بے شمار علماٸے کرام نے مولانا فضلِ حق خیرآبادیؒ کی قیادت میں انگریز کے خلاف جہاد کا فتویٰ جاری کیا تھا۔ انگریز افواج اور انتظامیہ اس بات پر متفق تھی کہ شمالی ہند میں مولوی ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ مولوی کے مقابلے میں دوسرا طبقہ پنجاب کا زمیندار، چوہدری، سردار، نواب اور وڈیرہ تھا جس نے اپنی وفاداری سے انگریز کے دل میں گھر کر لیا تھا۔ اس دوسرے طبقے نے جہادیوں کے خلاف لڑنے کے لیے انگریز کو افرادی قوت مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے علاقوں میں مسلمانوں کا بے دریغ خون بہا کر انگریز کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اسی لیے یہ طبقہ انگریزوں کا منظورِ نظر اور جاگیروں و مراعات کا حقدار قرار پایا تھا۔
یہ بھی تاریخی سچائی ہے کہ 1914 میں جنگِ عظیم اول کے دوران انگریز فوج کے 28 ہزار جوانوں میں سے 14 ہزار انہی وڈیروں نے پنجاب سے مہیا کیے تھے۔دوسری جانب 1857 کی جنگِ آزادی میں ہزاروں علمائے کرام کو پھانسیاں دی گئیں۔ انہیں توپوں کے ساتھ باندھ کر اڑایا گیا۔ علماء نے کالا پانی کی صعوبتیں برداشت کیں مگر ان کے پائے استقلال میں لغزش آئی اور نہ ہی ان کی تحریک کو دبایا جا سکا۔
1863 پٹنہ سازش، 1870 مالوہ سازش اور راج محل سازش، 1871 انبالہ سازش جیسی بے شمار سازشوں کے خلاف بغاوتیں چٹائی پر بیٹھنے والے اس مولوی کے سینے کا تمغہ اور ماتھے کا سہرا ہیں۔
جہاں تک جہاد کے فتوے کا تعلق ہے تو یہ کوئی نیا فتویٰ نہیں ہے۔ جہاد کا فتویٰ چودہ سو سال پہلے قرآن مجید میں دیا جا چکا ہے کہ جب کافر آپ کو قتل کریں یا آپ کی عزت اور مال پر قبضہ کریں اس وقت ہر مسلمان پر جہاد کرنا واجب ہے۔ ارشادِنبوی ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ جہاد میں خود جا کر لڑنا علماء کا کام نہیں ہے۔ اجتماعی نظم میں یہ کام ریاستوں کا ہے۔ علماء کو طعنہ دینا مناسب نہیں ہے۔ جب اور جہاں ضرورت پڑی ہے علماء نے کبھی اس سے راہِ فرار اختیار نہیں کی۔ علماء کا جہاد کا فتویٰ دراصل مسلم حکومتوں سے مطالبہ ہے کہ غزہ میں ظلم و بربریت کو روکنا ان کی ذمہ داری ہے وہ اسے ادا کریں۔