سعادت مند فرزند

112

آپ پوری کی پوری کتاب کا مطالعہ کر لیں کبھی کبھی کسی مصنف کا ایک جملہ اتنا گرانمایہ ہوتا ہے کہ وہ کتاب اس ایک جملے کی ہی وجہ سے مقبولیت اور محبوبیت کی منتہا کو چھو جاتی ہے
ایک ایسی ہی کتاب نے مجھے کئی برسوں سے اپنا اسیر بنایا ہوا ہے کتاب کے مصنف نے کئی جلیل القدر زعمائے ملت اور عالمی شخصیات کے آٹو گراف لیئے ہیں صدر ایوب کے دور میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل لاہور آئے ہوئے تھے
مصنف کو ان کی شخصیت نے متاثرنہیں کیا تو ان کا آٹوگراف نہیں لیا تھا
لیکن تین چار مہینے کے بعد جب نیویارک ٹائم میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے گھر کے لان میں ایک اونچی کرسی پر ایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے سامنے ایک آدمی جھکا ہوا ہے گویا کہ وہ سجدہ کر رہا ہے
تصویر کے نیچے کیپشن لکھا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل اپنی ماں کو آداب بجا لا رہا ہے تو مصنف نے سر پکڑ لیا اور دیر تک اظہار تاسف کی کیفیت میں رہا کف افسوس ملتا رہا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں آئے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا تو میں نے آٹوگراف نہیں لیا تھا لیکن اب میں ایک سعادت مند بیٹے کا آٹوگراف لینے کے لیے نیویارک ضرور جاؤں گا
اپنی ماں سے ٹوٹ کر چاہنے والا سعادت مند فرزند ہم نے بھی کاشف انور کی صورت میں دیکھا ہے ۔کاشف انور کی کامیابیوں کے سارے راز جو ہیں وہ اپنی والدہ کی تعظیم اور سعادت مندی کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔
نپولین بونا پاٹ نے کہا تھا کہ حسرتوں کے ہجوم میں اور خوشیوں کے تلاطم میں اپنی ماں کی عظمت کو دیکھو گزشتہ روز عجوبہ ء روزگار معالج ہربل ڈاکٹر ۔ ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی قیادت میں چلنے والے عظیم ادارہ رحمن فاؤنڈیشن جس کے زیر اہتمام گردوں کے مریضوں کا بڑا سریع الاثر علاج ہو رہا ہے
جناب کاشف انور نے اپنے رفقا کے ہمراہ دورہ کیا اور گردوں کے مریضوں کی عیادت کی اور باقاعدہ ایک سادہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رحمن فاؤنڈیشن کے چئرمین ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی تحقیقی کاوش کو سراہتے ہوئے شاندار الفاظ میں خراج تحسین اور ان کی انسانی خدمات کے اعتراف میں شیلڈ پیش کی ۔
ڈائریکٹر جناب نوازش علی خان لودھی نے آپ کا مختصر تعارف کراتے ہوئے سعادت مند فرزند دل بند کی خوبیوں اور ان کے محاسن بیان کرتے ہوئے دلچسپ واقعات سے سامعین کو محظوظ کیا۔
باپ کا خون غیرت پیدا کرتا ہے اور ماں کا دودھ کردار بناتا ہے ۔ ملکوں کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اور غیرت و حمیت کے پیکر متحرک اپنے ماں کی دودھ کی تاثیر کہ زیر اثر میدان کارزار میں ڈٹے ہوتے ہیں ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب مولانا محمد علی جوہر کی والدہ کو کسی نے غلط اطلاع دی کہ آپ کے دونوں بیٹے عدالت سے کسی معذرت نامے پر دستخط کر کے رہائی کا پروانہ حاصل کر رہے ہیں تو اسی وقت علی برادران کی ماں اماں بی نے انہیں ایک چٹ پر لکھا کہ قبل اس کے کہ تم کسی معذرت نامے پر دستخط کرنے کا ارادہ کرو میں
ان بوڑھے ہاتھوں سے تم دونوں کے گلے گھونٹ دوں گی۔ والدین کی سعادت مند بیٹے نے آج اپنی مختصر تقریر میں رحمان فاؤنڈیشن کے قافلے کے ساتھ چلنے کا عہد کر لیا اور یہ حقیقت ہے کہ کاشف انور کول کے نہیں عمل کے آدمی ہیں وہ باتوں سے زیادہ عمل پر زور دیتے ہیں ۔
رحمن فاؤنڈیشن میں آپ کی آمد نے ڈاکٹر وقار احمد نیاز اور ان کی پوری ٹیم کو حوصلہ دیا وہاں گردوں کے مریضوں کی آنکھوں میں زندگی کی چمک آئی اور وہ اپنے مسیحا کی راہ اپنے بستر علالت سے لے کر آسمان کی نیلگوں وسعتوں تک دیکھ رہے ہیں ۔
آپ نے ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی تحقیق و جستجو کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ڈاکٹر وقار احمد نیاز بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں ۔

کہ ہم نے اپنی پلکوں کے میناروں پہ تراشے ہیں چراغ

اور آپ کہتے ہیں کہ افسانہء شب کچھ بھی نہیں

لاہور کے اس سعادت مند فرزند کو رحمن فاؤنڈیشن لانے میں جس بستی نے کردار ادا کیا ان کا نام نہ لکھوں تو بہت بڑی ناانصافی ہوگی میری مراد جناب سید ماجد شاہ بخاری سے ہےجن کی کاوش اللہ کی نوازش ہے ۔
ملک کے شہرت یافتہ موٹیویشنل سپیکر جناب محمد اسلم راؤ نے اپنے مخصوص انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے رحمن فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر وقار احمد نیاز کے اوصاف حمیدہ اور ان کی انسانی خدمات کے حوالے سے شاندار واقعات بیان کیے ۔
جن سے متاثر ہو کر وہ خود اس ادارے کا حصہ بنے اور آج سعادت مند فرزند کاشف انور بھی اس ادارے کا حصہ بن چکے ہیں ہم انہیں ارادت و عقیدت کے چراغوں کی روشنی کی لو میں ان کی پوری ٹیم کے ساتھ انہیں خوش امدید کہتے ہیں ۔
جناب کاشف انور کے دست راس جناب راجہ حسن اختر بڑی باغ و بہار طبیعت کے انسان ہیں اج ان کی خاموشی میں بھی ہم نے فساد و بلاغت کے دریا بہتے دیکھیں وہ خوبصورت عادتوں کے ایک دل فریب انسان ہیں ان کے ساتھ جناب بٹ صاحب اپنی اجلی شخصیت کے سحر کے ساتھ موجود تھے ۔
محترمہ فردوس نثار کھوکھر ڈائریکٹر رحمن فاونڈیشن کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی گئی ۔ جناب نوازش علی خان لودھی کے لیے گفتگو کرنا اور سانس لینا یکساں ہے وہ بولتے نہیں موتی رولتے ہیں اور آپ نے ہمیشہ طوالت پر اختصار کو ترجیح دی ہے۔
آپ اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش رہتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو شاخ گفتار سے رنگا رنگ پھول توڑتے چلے جاتے ہیں
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ماہ جبیں خرام ناز سے گل کترتی چلی جا رہی ہو انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ لودھی صاحب پر سوالات کرتا چلا جائے اور آپ یوں ہی گلفشانی گفتار میں مصروف رہیں

فقط اسی شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

آخر میں مجھے خوب یاد آیا کہ میں نے بھی اظہار خیال کیا تھا لیکن

اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.