سعادت مند فرزند

61

آپ پوری کی پوری کتاب کا مطالعہ کر لیں کبھی کبھی کسی مصنف کا ایک جملہ اتنا گرانمایہ ہوتا ہے کہ وہ کتاب اس ایک جملے کی ہی وجہ سے مقبولیت اور محبوبیت کی منتہا کو چھو جاتی ہے
ایک ایسی ہی کتاب نے مجھے کئی برسوں سے اپنا اسیر بنایا ہوا ہے کتاب کے مصنف نے کئی جلیل القدر زعمائے ملت اور عالمی شخصیات کے آٹو گراف لیئے ہیں صدر ایوب کے دور میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل لاہور آئے ہوئے تھے
مصنف کو ان کی شخصیت نے متاثرنہیں کیا تو ان کا آٹوگراف نہیں لیا تھا
لیکن تین چار مہینے کے بعد جب نیویارک ٹائم میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے گھر کے لان میں ایک اونچی کرسی پر ایک بوڑھی خاتون بیٹھی ہوئی ہے اور اس کے سامنے ایک آدمی جھکا ہوا ہے گویا کہ وہ سجدہ کر رہا ہے
تصویر کے نیچے کیپشن لکھا ہوا ہے کہ اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل اپنی ماں کو آداب بجا لا رہا ہے تو مصنف نے سر پکڑ لیا اور دیر تک اظہار تاسف کی کیفیت میں رہا کف افسوس ملتا رہا اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ لاہور میں آئے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کا تو میں نے آٹوگراف نہیں لیا تھا لیکن اب میں ایک سعادت مند بیٹے کا آٹوگراف لینے کے لیے نیویارک ضرور جاؤں گا
اپنی ماں سے ٹوٹ کر چاہنے والا سعادت مند فرزند ہم نے بھی کاشف انور کی صورت میں دیکھا ہے ۔کاشف انور کی کامیابیوں کے سارے راز جو ہیں وہ اپنی والدہ کی تعظیم اور سعادت مندی کے بطن سے جنم لیتے ہیں۔
نپولین بونا پاٹ نے کہا تھا کہ حسرتوں کے ہجوم میں اور خوشیوں کے تلاطم میں اپنی ماں کی عظمت کو دیکھو گزشتہ روز عجوبہ ء روزگار معالج ہربل ڈاکٹر ۔ ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی قیادت میں چلنے والے عظیم ادارہ رحمن فاؤنڈیشن جس کے زیر اہتمام گردوں کے مریضوں کا بڑا سریع الاثر علاج ہو رہا ہے
جناب کاشف انور نے اپنے رفقا کے ہمراہ دورہ کیا اور گردوں کے مریضوں کی عیادت کی اور باقاعدہ ایک سادہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رحمن فاؤنڈیشن کے چئرمین ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی تحقیقی کاوش کو سراہتے ہوئے شاندار الفاظ میں خراج تحسین اور ان کی انسانی خدمات کے اعتراف میں شیلڈ پیش کی ۔
ڈائریکٹر جناب نوازش علی خان لودھی نے آپ کا مختصر تعارف کراتے ہوئے سعادت مند فرزند دل بند کی خوبیوں اور ان کے محاسن بیان کرتے ہوئے دلچسپ واقعات سے سامعین کو محظوظ کیا۔
باپ کا خون غیرت پیدا کرتا ہے اور ماں کا دودھ کردار بناتا ہے ۔ ملکوں کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے اور غیرت و حمیت کے پیکر متحرک اپنے ماں کی دودھ کی تاثیر کہ زیر اثر میدان کارزار میں ڈٹے ہوتے ہیں ۔
مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب مولانا محمد علی جوہر کی والدہ کو کسی نے غلط اطلاع دی کہ آپ کے دونوں بیٹے عدالت سے کسی معذرت نامے پر دستخط کر کے رہائی کا پروانہ حاصل کر رہے ہیں تو اسی وقت علی برادران کی ماں اماں بی نے انہیں ایک چٹ پر لکھا کہ قبل اس کے کہ تم کسی معذرت نامے پر دستخط کرنے کا ارادہ کرو میں
ان بوڑھے ہاتھوں سے تم دونوں کے گلے گھونٹ دوں گی۔ والدین کی سعادت مند بیٹے نے آج اپنی مختصر تقریر میں رحمان فاؤنڈیشن کے قافلے کے ساتھ چلنے کا عہد کر لیا اور یہ حقیقت ہے کہ کاشف انور کول کے نہیں عمل کے آدمی ہیں وہ باتوں سے زیادہ عمل پر زور دیتے ہیں ۔
رحمن فاؤنڈیشن میں آپ کی آمد نے ڈاکٹر وقار احمد نیاز اور ان کی پوری ٹیم کو حوصلہ دیا وہاں گردوں کے مریضوں کی آنکھوں میں زندگی کی چمک آئی اور وہ اپنے مسیحا کی راہ اپنے بستر علالت سے لے کر آسمان کی نیلگوں وسعتوں تک دیکھ رہے ہیں ۔
آپ نے ڈاکٹر وقار احمد نیاز کی تحقیق و جستجو کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے انہیں شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ڈاکٹر وقار احمد نیاز بجا طور پر یہ کہہ سکتے ہیں ۔

کہ ہم نے اپنی پلکوں کے میناروں پہ تراشے ہیں چراغ

اور آپ کہتے ہیں کہ افسانہء شب کچھ بھی نہیں

لاہور کے اس سعادت مند فرزند کو رحمن فاؤنڈیشن لانے میں جس بستی نے کردار ادا کیا ان کا نام نہ لکھوں تو بہت بڑی ناانصافی ہوگی میری مراد جناب سید ماجد شاہ بخاری سے ہےجن کی کاوش اللہ کی نوازش ہے ۔
ملک کے شہرت یافتہ موٹیویشنل سپیکر جناب محمد اسلم راؤ نے اپنے مخصوص انداز میں اظہار خیال کرتے ہوئے رحمن فاؤنڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر وقار احمد نیاز کے اوصاف حمیدہ اور ان کی انسانی خدمات کے حوالے سے شاندار واقعات بیان کیے ۔
جن سے متاثر ہو کر وہ خود اس ادارے کا حصہ بنے اور آج سعادت مند فرزند کاشف انور بھی اس ادارے کا حصہ بن چکے ہیں ہم انہیں ارادت و عقیدت کے چراغوں کی روشنی کی لو میں ان کی پوری ٹیم کے ساتھ انہیں خوش امدید کہتے ہیں ۔
جناب کاشف انور کے دست راس جناب راجہ حسن اختر بڑی باغ و بہار طبیعت کے انسان ہیں اج ان کی خاموشی میں بھی ہم نے فساد و بلاغت کے دریا بہتے دیکھیں وہ خوبصورت عادتوں کے ایک دل فریب انسان ہیں ان کے ساتھ جناب بٹ صاحب اپنی اجلی شخصیت کے سحر کے ساتھ موجود تھے ۔
محترمہ فردوس نثار کھوکھر ڈائریکٹر رحمن فاونڈیشن کی کمی بڑی شدت سے محسوس کی گئی ۔ جناب نوازش علی خان لودھی کے لیے گفتگو کرنا اور سانس لینا یکساں ہے وہ بولتے نہیں موتی رولتے ہیں اور آپ نے ہمیشہ طوالت پر اختصار کو ترجیح دی ہے۔
آپ اکثر کوہستانی وقار کی طرح خاموش رہتے ہیں لیکن جب بولتے ہیں تو شاخ گفتار سے رنگا رنگ پھول توڑتے چلے جاتے ہیں
یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی ماہ جبیں خرام ناز سے گل کترتی چلی جا رہی ہو انسان کا جی چاہتا ہے کہ وہ لودھی صاحب پر سوالات کرتا چلا جائے اور آپ یوں ہی گلفشانی گفتار میں مصروف رہیں

فقط اسی شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں

میں تیرا حسن تیرے حسن بیاں تک دیکھوں

آخر میں مجھے خوب یاد آیا کہ میں نے بھی اظہار خیال کیا تھا لیکن

اپنا بیان حسن طبیعت نہیں مجھے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.