پچاسی ارب کے عہدے اور صفر کارکردگی

52

پاکستان کے حالیہ الیکشن مفت میں نہیں ہوئے اربوں روپے قوم کے خرچ کرکے جمہوریت کے عمل کو آگے بڑھایا گیا ہے ۔قومی مفاد کے نام پر اخراجات کرنے کی روایت بھی بہت پرانی ہے ۔
اراکین اسمبلی کی ہوشربا تنخواہیں اور مراعات دیکھیں اور پھر اس کے مقابلے میں
ان کی “حسن کارکردگی”تسلسل کے ساتھ سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے ۔
اسمبلیوں میں ہنگامہ آرائی ،ہلڑ بازی ،گالی گلوچ اور جوتیاں چلانے کی روایت ابھی تک برقرار ہے
حالیہ الیکشن سے پہلے کی اسمبلیوں کے اجلاسوں کی کہانیاں سب کے سامنے ہیں ۔
اسمبلیوں میں عوامی بہبود کے لئے قانون سازی کے عمل کو ہمیشہ ثانوی حیثیت ملتی رہی ہے۔
قوم کو ریلیف دینے اور ملک کی تعمیروترقی کے سنہری خواب دکھانے والے اسمبلیوں میں دشمنیاں اور دوستیاں نبھاتے نظر آتے ہیں۔
حالانکہ مہذب معاشروں میں حکومت اور اپوزیشن مل کر سب سے پہلے قومی مفاد کے لئے لائحہ عمل طے کرکے چلتے ہیں
ہلکی پھلکی نوک جھونک ہوتی ضرور ہے مگر اسمبلیوں کے مقدس ایوانوں میں گندی گالیوں اور
زو معنی جملوں سے خواتین ارکان کو ہراساں کئے جانے کی بدترین مثال پاکستان کے سوا کہیں نہیں ملتی ۔
قوم کی امنگوں کے برعکس ذاتی مفادات کے تحفظ کو مقدم بنانے کے عمل سے جمہوریت کی نفی کی جاتی ہے ۔
اراکین اسمبلی کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ ان پر کثیر قومی سرمایہ خرچ کیا جارہا ہے
قانون ساز اداروں کی صفر کارکردگی پر مقروض قوم کا دل کھول کر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے ۔
حساب رکھنے والے روز اراکین اسمبلی کی تنخواہیں لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔
قومی اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی تنخواہیں جمع کریں تو 35ارب 54کروڑ 70ہزار روپے ماہانہ بنتے ہیں ۔اس میں ہاؤس رینٹ ،گاڑی ،گھر ،بیرون ممالک دورے سپیکر ،ڈپٹی سپیکرز،وزراء وزرائے اعلیٰ
گورنر ،وزیراعظم اور صدر کی تنخواہیں شامل کریں تو سالانہ خرچ 85ارب سے زیادہ بنتا ہے ۔
ان اداروں کا بنیادی مقصد ملکی نظم ونسق چلانے کے عمل سے عوام کے لئے ریلیف کی صورت پیدا کرنا ہے ۔
ملک کو تعمیر وترقی کی منزل سے ہمکنار کرتے ہوئے عوام کی حقیقی خوشحالی کے راستے تلاش کرنا ہی قانون ساز اداروں اور اہم آئینی عہدوں کا فرض ہوتا ہے ۔
ملکی معیشت کو استحکام دینے کیلئے قانون ساز اداروں کے ایوانوں کا چلنا ناگزیر ہے ۔
ایوان چلیں گے تو قومی مفاد میں قانون سازی ہوسکے گی ۔
ایوان کوئی سیاسی جماعت تنہا نہیں چلایا کرتی بلکہ تمام اراکین اسمبلی اپنی سیاسی وابستگیوں سے
بالاتر ہوکر جب تک خالص قوم کے مفاد کی خاطر مقدس ایوان کا احترام نہیں کرتے
اس وقت تک ان ایوانوں کی کارکردگی صفر ہی رہے گی ۔
اس وقت ملک کے مسائل کو مل کر حل کیا جا سکتا ہے، کوئی لیڈر یا پارٹی تنہا قوم کو
درپیش مسائل حل نہیں کر سکتی۔
قانون ساز اداروں کے اراکین کے غیر سنجیدہ رویوں سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے
اس وقت قوم کی نظریں اس ایوان پر لگی ہیں کہ ان کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے
کی خاطر ان کے رہنما کیسے بحران ٹالتے ہیں ؟
.پاکستان کو اس وقت کئی طرح کے چیلنجز اور مسائل درپیش ہیں لہٰذا کوئی ایک لیڈر یا جماعت
اکیلی ملک کو اس بھنور سے نہیں نکال سکتی
آئین کی سربلندی اور پارلیمان کو مضبوط کرنے سے ملک کو آگے لے جایا جا سکتا ہے۔
پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر آ چکا جہاں تمام حب الوطن سیاستدانوں کو قومی اداروں
کے ساتھ مل کر چلنے کی ضرورت ہے ۔
اسمبلیوں میں،ہنگامہ آرائی ،ہلڑ بازی اور گالم گلوچ سے قوم کے کثیر سرمایہ کو ضائع ہونے سے بچانے کی اشد ضرورت ہے ،چاہئے تو یہ تھا کہ اہم عہدوں اور اشرافیہ کی مراعات پر شاہانہ اخراجات میں کٹوتی کا عمل متعارف کرایا جاتا ۔
اراکین اسمبلی ازخود بھاری تنخواہیں اور مراعات لینے سے انکار کرتے مگرایسا نہیں ہوسکا
اب اگر وسائل کو ضائع ہونے سے بچانے کا موقع موجود ہے تو پھر اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے
راہنماؤں کو اب ملکی مفاد کی خاطر مل کر کام کرنا ہوگا ۔قومی مفاد کو ترجیح دینے کی
روایت ڈالنے کے سوا اب ان کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں بچا
قوم کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے کی خاطر ملکی مفاد کو مقدم رکھنے کا مظاہرہ کریں
اس مرحلے پر ذاتی مفادات کی لڑائی تو پوری قوم کو تباہی کے دہانے پر لے جائے گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.