بارش ،سیلاب اور نکاسی آب

اورنگزیب اعوان

2

پاکستانی قوم دنیا کی وہ بدقسمت قوم ہے. جو آزاد تو ہوگئی. مگر آزادی کے حقیقی معنوں سے آج بھی ناآشنا ہے. پہلے ہم لوگ انگریز کی غلامی میں تھے. اب نام نہاد سیاسی رہنماؤں کی غلامی کر رہے ہیں. اس میں قصور ہمارا اپنا ہے. ہم لوگ سیاسی رہنماؤں کو وہ مقام عطا کر دیتے ہیں. جس کے وہ مستحق نہیں ہوتے. آج تک کسی سیاسی رہنما نے قوم کے بارے میں نہیں سوچا. سب نے اپنے سیاسی مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی ہے. کاش اگر وہ دس فیصد بھی ملک کے لیے کچھ سوچ لیتے. تو ہمارے متعدد مسائل حل ہو چکے ہوتے. جب ہم اپنے ملکی مسائل پر نظر ڈالتے ہیں. تو احساس ہوتا ہے. کہ یہ لوگ تو ہمارے وسائل پر صرف اور صرف عیاشی کرنے آتے ہیں. مسائل تو اسی جگہ موجود رہتے ہیں. بلکہ ان میں اضافہ ہوتا ہے. کہنے کو تو ہمیں آزادی حاصل کیے 78 سال گزر گئے ہیں. مگر آج تک ہمارے ملک میں نکاسی آب کا انتظام نہیں. انگریز کے دور حکومت میں بچھایا گیا سیوریج سسٹم چل رہا ہے. جو موجودہ آبادی کے لحاظ سے بالکل ناکارہ ہو چکا ہے. متعدد جگہ سیوریج پائپ لائنیں بوسیدہ ہو چکیں ہیں. ملک کے کسی بھی حصہ میں آدھ گھنٹہ بارش ہو جائے. تو شہر کے شہر پانی میں ڈوب جاتے ہیں. سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرتیں ہیں. ٹریفک کی آمدورفت میں شدید مشکلات درپیش آتی ہیں. متعدد گاڑیاں پانی کی سطح بلند ہونے کی وجہ سے ڈوب جاتی ہیں. یا بند ہو جاتیں ہیں. جس سے میلوں لمبی قطاریں لگ جاتیں ہیں. اس ٹریفک جام میں ایمبولینس سروس بھی متاثر ہوتی ہے. اور کئی قمیتی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے. کیونکہ مریض علاج معالجہ کے لیے بر وقت ہسپتال نہیں پہنچ پاتے. بارش کا یہ پانی لوگوں کے گھروں اور دکانوں کی بنیادوں میں چلا جاتا ہے. جس کی وجہ سے گھر اور عمارتیں مسمار ہو جاتیں ہیں. معصوم شہریوں کو زندگی اور قمیتی سامان سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے. تیز اور موسلا دھار بارشوں کی وجہ سےدیاؤں، ندی نالوں میں طغیانی آجاتی ہے. جس کی وجہ سے سیلابی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے. سیلاب میں انسانی بستیاں، گاؤں اور شہر صفحہ ہستی سے مٹ جاتے ہیں. قمیتی جانیں و مالی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہے. بارش جس کو نعمت خدا بندی کہا جاتا ہے. ہمارے ملک میں یہی نعمت زحمت بن جاتی ہے. اس کی بنیادی وجہ نکاسی آب کی کمی ہے. کاش ہمارے حکمران نکاسی آب کی اہمیت اور ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے. اس کی بہتری پر توجہ مرکوز کرے. اپنی تباہی اور بربادی کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہیں. ہم الیکشن کے وقت اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے وقت شخصیت پرستی کا شکار ہوتے ہیں. ہم نے کبھی انتخابی منشور کو دیکھ کر ووٹ نہیں ڈالا. کیونکہ ہم لوگ غلامی کی زندگی گزار گزار کر ذہنی غلام بن چکے ہیں. اور ہمارے نام نہاد حکمرانوں کو پتہ چل گیا ہے. کہ ان غلاموں کو کس طرح سے سبز باغ دیکھا کر مطمئن رکھنا ہے. ترقیاتی منصوبوں کی مد میں اربوں روپے قومی خزانہ سے لیے جاتے ہیں. عوام پر ظالمانہ ٹیکس عائد کیے جاتے ہیں. مگر یہ ساری رقم ان کی ذاتی بینک اکاؤنٹ میں منتقل ہو جاتی ہے. جس پر ان کے بچے عیاشی کرتے ہیں. اور بڑے فخریہ انداز میں لوگوں کو بتاتے ہیں. کہ ہم فلاں غلام قوم کے سربراہ ہے. اس کی ہزاروں ایکڑ پر مشتمل رہائش گاہوں کو دیکھ کر بخوبی اندازہ ہوتا ہے. کہ یہ کس طرح سے عوام کا خون چوستے ہیں. کوئی سیاسی رہنما ،کرپشن ،بدعنوانی،قانون شکنی کی وجہ سے جیل جاتا ہے. تو یہ غلام قوم اس کو اپنا ہیرو بنا لیتی ہے. اس کی تعریفوں کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں. ملکی بربادی کے ذمہ دار ہم لوگ خود ہیں. کیونکہ ہم نے ہی ایسے حکمرانوں کو منتخب کیا ہے. 78 سالوں میں جو بھی حکومت میں آیا. اس نے اپنی ذات بارے ہی سوچا ہے. ملکی مسائل وہی کے وہی کھڑے ہیں. ہمارے ملک میں جو جتنا بڑا کرپٹ ہے. وہ اتنا ہی بڑا لیڈر ہے.وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف سرکاری دورہ پر آجکل جاپان میں موجود ہیں. قومی اخبارات میں آدھے صفحہ پر مشتمل اشتہار دیا جاتا ہے. کہ قوم کو پتہ چلے. کہ ہم لوگ جاپان کا دورہ کر رہے ہیں. اس دورے کے کوئی مثبت نتائج نکلے یا نہ نکلے. مگر قومی خزانہ سے اربوں روپیہ ذاتی تشہیر کے لیے نکل گیا ہے. روز سننے کو ملتا ہے. کہ وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف فرما رہی ہے. کہ ہم جاپان کی ترقی پسندانہ سوچ سے بہت کچھ سیکھے گے. کیا ہی اچھا ہوتا کہ وہ جاپان میں یہ بھی دیکھ لیتی. کہ وہاں کی حکومت یا کوئی سیاسی رہنما ذاتی تشہیر کے لیے قومی خزانہ سے کتنی رقم خرچ کرتا ہے. قومیں باتوں اور اخبارات میں اشتہارات دینے سے ترقی نہیں کرتیں. بلکہ کفایت شعاری، محنت اور لگن قومی ترقی کا بنیادی زینہ ہے. پنجاب کے نکاسی آب ،سیوریج نظام کی بہتری اور واٹر سپلائی کی فراہمی کے لیے جاپان کی کمپنیوں سے استفادہ حاصل کیا جانا چاہیے. ملک پاکستان میں کسی چیز کی کمی نہیں. بس ہمارے ہاں آزادانہ سوچ اور مثبت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے. جس دن ہم لوگوں نے مثبت اور تعمیری سوچ کے ساتھ کام کرنا شروع کر دیا. اسی دن ہمارے ملک نے ترقی کی منازل کو چھو لینا ہے. ہمیں کسی بھی سیاسی رہنما کی ضرورت نہیں. بس اپنی سوچوں کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے. کیونکہ انسان کی سوچ ہی اسے عظیم بناتی ہے. اور یہی عظیم اور مثبت سوچ حقیقی قیادت کو سامنے لاتی ہے. جو ملکی وسائل کو مثبت طریقہ سے استعمال کرتے ہوئے. دنیا کی عظیم اقوام میں اپنے ملک کو شامل کروا دیتی ہے.

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.