بیرون ملک پاکستانی برادری سے سول نافرمانی میں حصہ لینے اور ملک کی ترسیلات زر روکنے کی عمران خان کی اپیل ملک دشمنی کی بدترین انتہا ہے ۔ خوش قسمتی سے اس کال کو محب وطن تارکین وطن نے کلی طور پر مسترد کر دیا اور ریکارڈ ترسیلات زر سے اس کا جواب دیتے ہوئے ملک کے لیے اپنی محبت کو اجاگر کیا۔
اس کے بعد اطلاعات سامنے آئیں کہ عمران خان نے فیلڈ مارشل کو کوئی خط بھی لکھا تھا ۔ تاہم ، فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر نے اس طرح کا کوئی خط موصول ہونے کی تردید کی ۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر انہیں اس طرح کا کوئی بھی خط ملتا تو وہ اسے کھولے بغیر حکومت کو بھیج دیتے۔
فیلڈ مارشل کے اس اصولی موقف نے عوام کو یہ یقین دلایا ہے کہ فوج آئینی حدود کی پاسداری کر رہی ہے، جس سے عدالتی نظام کو ریاست کے خلاف کام کرنے والے عناصر سے نمٹنے کا موقع ملا ہے۔ بارہا فوج کی غیر جانبداری کا واویلا مچانے والے عمران خان اب اپنے ہی کہے سے پھر چکے ہیں اور اپنی ذاتی سیاسی اور قانونی لڑائیوں میں فوج کو شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ تضاد ایک وسیع تر طرز عمل کو نمایاں کرتا ہے کہ وہ عوامی طور پر این آر او کے خیال کو مسترد کرتے ہوئے بھی پس پردہ اسے حاصل کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان اقدامات نے بہت سے لوگوں کو یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور کیا ہے کہ وہ درحقیقت شدت سے این آر او کی تلاش میں ہیں۔ اپنی ساکھ بحال کرنے کے لیے عمران خان اور ان کی پارٹی کو سیاسی اور قانونی ذرائع سے اپنے چیلنجوں کا سامنا کرنے کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ایک اور انتہائی پریشان کن مسئلہ سامنے آیا ہے۔ حراست میں رہتے ہوئے عمران خان بین الاقوامی پلیٹ فارمز پر مضامین شائع کر رہے ہیں، جس سے سنگین سوالات اٹھ رہے ہیں۔ جیل کے قواعد قیدیوں کو تحریری مواد باہر بھیجنے کی اجازت نہیں دیتے اور حکام نے تصدیق کی ہے کہ خان کی جانب سے جیل سے کوئی مضمون لکھنے یا بھیجنے کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ اس سے ایک اہم سوال سامنے آتا ہے کہ اگر وہ اس کے پیچھے نہیں ہیں تو یہ بیانیہ کون تیار کر رہا ہے؟
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ غیر ملکی عناصر بشمول گولڈ اسمتھ خاندان اور مغربی لابی ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس چلا رہے ہیں اور ان کی جانب سے ریاست مخالف مواد پھیلا رہے ہیں۔ رپورٹس کے مطابق لندن میں مقیم افراد اس “مضمون نویسی” کے بیانیے کو تیار کر رہے ہیں اور اسے فروغ دے رہے ہیں، جس میں عمران خان کے نام اور اثر و رسوخ کو اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
یہ تشویشناک ہے کہ عمران خان نے بظاہر ریاست مخالف قوتوں اور غیر ملکی عناصر کو اپنے پلیٹ فارمز پر پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف دشمنی پھیلانے کی اجازت دی ہے۔ اس رویے نے سنگین خدشات کو جنم دیا ہے کہ وہ اب جمہوری تحریک میں شامل نہیں ہیں بلکہ ایک مہنگے اور بیرونی طور پر چلائے جانے والے سیاسی منصوبے کا مرکز ہیں۔ قومی مفادات کو فروغ دینے کے بجائے ان کے اقدامات پاکستان کے دشمنوں کے مفادات کی تکمیل کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا پروپیگنڈا ایک بار پھر ذاتی عزائم اور غیر ملکی ہیرا پھیری کا ذریعہ ہے نہ کہ یہ جمہوری اصلاحات کے لیے ایک مخلصانہ جدوجہد ہے۔ عمران خان نے مستقل طور پر اپنے ذاتی مفادات کو قومی ترجیحات پر ترجیح دی ہے، جو پاکستان، اس کے عوام اور اس کے اداروں کی سراسر توہین ہے۔
اس بیانیے میں مزید پیچیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب دو امریکی قانون سازوں نے ایوان نمائندگان میں ایک بل پیش کیا جس کا مقصد پاکستانی ریاستی حکام پر مبینہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی بنا پر پابندیاں عائد کرنا تھا۔ امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، ان خلاف ورزیوں میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری شامل ہے۔ پاکستان ڈیموکریسی ایکٹ نامی یہ بل جنوبی کیرولائنا کے ریپبلکن کانگریس مین جو ولسن اور کیلیفورنیا کے ڈیموکریٹک کانگریس مین جمی پنیٹا نے پیش کیا۔ اسے مزید غور کے لیے ہاؤس فارن افیئرز اور جوڈیشری کمیٹیوں کو بھیجا گیا ۔ مجوزہ قانون سازی میں پاکستان کے آرمی چیف کے خلاف 180 دنوں کے اندر پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا اگر پاکستان انسانی حقوق کے جاری خدشات کو حل کرنے میں ناکام رہے۔ بل نے یو ایس گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاؤنٹیبلٹی ایکٹ کو نافذ کرنے کی کوشش کی، جو امریکی حکومت کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ملزمان کو ویزا اور داخلے سے انکار کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ مزید برآں، اس نے امریکی حکام کو پاکستان میں سیاسی اپوزیشن کو دبانے میں مبینہ طور پر ملوث افراد کی نشاندہی اور سزا دینے کی ہدایت کی۔ امریکہ کے صدر کو ایسی پابندیاں اٹھانے کا اختیار ہوگا اگر پاکستان شہری حکمرانی میں فوجی مداخلت بند کر دے اور تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کر دے جنہیں غلط طور پر قید سمجھا جاتا ہے۔
یہ بل پیش کرنے والے قانون سازوں سے ایک سوال ہے کہ اگر کسی دوسرے ملک میں اسی طرح کی قانون سازی متعارف کرائی جائے جو امریکہ میں سنگین الزامات پر قید افراد کی وکالت کرے تو وہ کیسا ردعمل دیں گے؟ کیا وہ عافیہ صدیقی جیسے کسی فرد کے لیے غیر ملکی حمایت کا خیرمقدم کریں گے اور ایک ایسے فرد جسے امریکی عدالتی نظام نے مجرم قرار دیا ہے اور وہ اسے قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس کی حمایت میں کسی اور ملک کی قانون سازی کو قبول کریں گے؟ یقیناً وہ اپنے قانونی عمل میں ایسی بیرونی مداخلت کو مسترد کر دیں گے۔
اسی طرح پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات کو سنبھالنے اور اپنے قانونی فریم ورک کے تحت افراد پر مقدمات چلانے کا آزادانہ حق حاصل ہے۔ اگرچہ یہ قانون ساز ذاتی