سیاست یا احساسیت

تحریر ؛۔جاویدایازخان

5

یہ بات عیاں ہے کہ پاکستان کی آئندہ انتخابی معرکہ آرائی سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہوگی ۔اس لیے ملک کی بڑی بڑی سیاسی جماعتیں اور سیاستدان مبینہ طور پر اپنی اپنی سوشل میڈیا ٹیموں کو منظم اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔یہ سب کچھ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں یہ ٹرینڈ بڑھتا چلا جارہا ہے جو اس فلسفے کی تائید کرتا ہے کہ سیاست کا سارا دارومدار پیغام رسانی پر ہوتا ہے ۔لیکن صرف موثر اور نتیجہ خیز پیغام رسانی ہی کامیابی کی علامت سمجھی جاتی ہے ۔جس کے لیےبنیادی طور پر “رفتار “یعنی کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانا اور وہ بھی کم لاگت یعنی کم سے کم خرچہ کےذریعے مقصد کا حصول ممکن بنانا ۔ماضی میں اس مقصد کے لیے پرنٹ میڈیا پر انحصار کیا جاتا تھا ۔ہر سیاسی جماعت کا یا تو اپنا اخبار ہوتا تھا یا پھر مخصوص صحافی یہ کردار ادا کرتے تھے ۔اور یہی ذریعہ سیاسی منشور ،نظریہ اور سیاسی وابستگی کا اظہار بنتا تھا ۔سیاست دان اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا فریضہ اپنے پرنٹ میڈیا سیل کے سپرد کر دیتے تھے ۔پھر ماس میڈیا بھی پرنٹ میڈیا کے ساتھ کھڑا ہو گیا ۔لیکن آج سوشل میڈیا بڑی تیزی سے ان کی جگہ لے رہا ہے ۔یہ عام لوگوں کی سوچ ہے کہ سوشل میڈیا ہی تیز ترین ،براہ راست اور درست معلومات کا ذریعہ ہے ۔موبائل کی ہر فرد کے ہاتھ میں موجودگی اور اس بارے میں نوجوانوں کا خصوصی شوق اہم کردار ادا کر رہا ہے جس کی باعث یہ سیاست کا مرکزی کردار بن کر ابھرا ہے ۔اب نوجوان اپنے شعور کے مطابق اپنے جذبات و خیالات کے اظہار کے لیے نہ تو کسی اسٹیٹ ،سیاسی پارٹی ،اخبار ،ٹیلی ویژن یا کارپوریشن کا محتاج ہے اور نہ ہی لیڈر اور عوام کے درمیان اہمیت جتانے والے پیشہ ور سیاسی کارکنوں کی بات سنتا ہے ۔ہر سیاسی لیڈر کا پیغام برہ راست سنا بھی جاتا ہے اور سمجھا بھی جاتا ہے ۔ہر وہ نوجوان جس کے ہاتھ میں موبائل فون ہے وہ اپنی ذات میں ا یک صحافی بھی ہے اور فوٹو گرافر بھی ہے ۔آج کا باشعور نوجوان براہ راست تعلق کا خواہاں ہے ۔وہ اپنے اور اپنے نمائندے یا لیڈر کے درمیان کسی سیاسی اتالیق کو حائل نہیں ہونے دینا چاہتا ہے ۔وہ اپنی بات خود کرنا چاہتا ہے جو مورثی اور دقیانوسی طرز سیاست کو پسند نہیں کرتا ۔وہ سیاسی لیڈر تک اپنا ذاتی تعلق اور پہچان چاہتا ہے ۔اب بڑے بڑےمہنگے اشتہارات اور سیاسی مدد گاروں کی بجاۓ موبائل فون کے ذریعے لاکھوں فالوورز تک اپنا پیغام سیکنڈز میں پہنچایاجاسکتا ہے ۔اس عمل میں فرد معاشرے سے الگ تھلگ نہیں ہوتا بلکہ اپنا ایک نیا حلقہ اور نئی برادری تشکیل کرتا ہے ۔سوشل میڈیا دنیا پر آندھی کی طرح چھا چکا ہے اور سیاست دانوں کے لیے اپنے حلقے تک رسائی اتنی آسان اور سستی آج سے پہلے کبھی نہ تھی ۔اسی لیے سوشل میڈیا کے استعمال کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے ۔ہر سیاست دان کا بیانیہ اس کے ووٹر تک تیزی سے پہنچ رہا ہے ۔یہی سوشل میڈیا کی کرشمہ سازی ہے ۔

اب سیاست کی بجاۓ احساسیت زیادہ اہم ہو چکی کیونکہ یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ احساسیت کے بغیر سیاست اس سوشل میڈیا کے دور میں ممکن نہیں رہی ۔اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پرانی سوچ اور دقیانوسی سیاست دم تو ڑ رہی ہے ۔اب ہر آنے والا الیکشن نوجوانوں کا ہو گا کیونکہ ہرآنے والے دن کے ساتھ نوجوان ووٹرز کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ آج کا نوجوان بے حد حساس ہے اور سوشل میڈیا کے طفیل شعور کی بلندیوں کو چھو رہا ہے ۔سچ اور جھوٹ کو خوب سمجھتا ہے پرانے سیاسی گرگوں کی باتوں پر یقین نہیں کرتا ۔وہ سیاست اور احساسیت میں تمیز کرنا سیکھ چکا ہے اور یہ جانتا ہے کہ احساسیت ہی دراصل سیاست کی بنیاد ہے ۔جس کا مطلب حقیقی انسانی کیفیات کے زیادہ سے زیادہ قریب ہونا ہوتا ہے یا پھر محسوس کرنے کی استعداد یا صلاحیت ہوتی ہے ۔یاد رہے کہ نوجوانوں کی کل تعداد ہماری آبادی کا ستر فیصد تک جا پہنچی ہے جو اپنی اپنی الگ اور منفرد سیاسی و سماجی سوچ کے حامل ہیں ۔جو جانتے ہیں کہ سیاست کی راستہ خدمت خلق اور خدمت انسانیت میں پوشیدہ ہے ۔مقبولیت کا راز لوگوں سے محبت میں پنہاں ہوتا ہے ۔سیاست رنگ بدلتی رہتی ہے لیکن احساسیت سدا بہار عروج و مقبولیت کا وہ گلشن ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی ۔درحقیقت آج کا نوجوان سیاسی عقیدت ،شخصیت پرستی ،اندھی تقلید کے گرداب سے نکل چکا ہے وہ ایسی فکری آزادی کا خواہاں ہےجہاں اسے اہمیت حاصل ہو جہاں اس کی اپنی پہچان ہو ۔

گو الیکشن تو کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتے لیکن پاکستان ،پنجاب اور خصوصی بہاولپور ضلع میں ہمارےسیاست دانوں نے اپنی احساسیت کی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں ۔جسے سوشل میڈیا کے ذریعے نمائیاں بھی خوب کیاجارہا ہے ۔سابقہ اور متوقعہ سیاستدان بھی یہ جان چکے ہیں کہ کچھ چیزیں سیاست سے ماورا ہوتی ہیں ۔انہیں اس بات کا دراک ہو چکا ہے کہ سیاست کا راستہ احساسیت کے معاملات سے ہو کر گزرتا ہے ۔ گو کہ سیاست کا مقصد عوام میں مقبولیت اور اقتدار تک رسائی کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ان مقاصد کا حصول تب ہی ممکن ہوتا ہے جب سیاست دان احساسیت کی راہ پر چلتا ہے ۔سیاست میں مقبولیت کا امتحان صرف الیکشن کے وقت ہوتا ہے جبکہ احساسیت کا سفر ہر وقت جاری رہتا ہے ۔آجکل ہر شادی ،خوشی ،غمی ،جنازۓ قل خوانی اور تعزیت کے موقعہ پر سیاستدانوں کی شرکت کا یکا یک بڑھنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مقبولیت کی سیڑھیاں جذبہ احساسیت سے چڑھنا ہی ممکن ہے ۔یہی وہ تبدیلی ہے جو آج کا نوجوان معاشرے میں لا چکا ہے ۔میں جہاں بھی جاتا ہوں یہ محسوس کرتا ہوں کہ آج کا ہر نوجوان اپنے لیڈر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.