پاکستانی کلچر کے فروغ کی اہمیت

تحریر: امجد اقبال امجد

2

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مختلف تہذیبوں، زبانوں، رسم و رواج اور تاریخی ورثے کا امین ہے۔ یہاں چاروں صوبوں، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں بسنے والے لوگ اپنے اپنے مخصوص کلچر کے ساتھ پاکستان کی رنگا رنگ ثقافت کو جنم دیتے ہیں۔ پاکستانی کلچر میں صوفیانہ اقدار، محبت، بھائی چارہ، مہمان نوازی، لباس، خوراک، فنون لطیفہ، لوک رقص، لوک موسیقی، لوک کہانیاں اور ہاتھ سے بنی ہوئی اشیاء شامل ہیں۔ یہ تمام عناصر ایک ایسی پہچان بناتے ہیں جو ہمیں دنیا میں ممتاز کرتے ہیں۔

کلچر کسی قوم کی روح اور شناخت ہوتا ہے۔ جب ہم اپنے کلچر کو فروغ دیتے ہیں تو دراصل ہم اپنی شناخت، اپنے وجود اور اپنی اقدار کو محفوظ کرتے ہیں۔ پاکستانی کلچر کا فروغ اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج کی گلوبلائزڈ دنیا میں مغربی تہذیب کا دباؤ ہماری نوجوان نسل کو اپنی روایات سے دور کر رہا ہے۔ اگر ہم نے اپنے کلچر، اپنی زبانوں اور اپنے رہن سہن کے انداز کو نہ اپنایا اور نہ پھیلایا تو ہماری نئی نسل اپنی جڑوں سے کٹ جائے گی۔

اسی جذبے کے تحت لاہور میں تین باہمت، باشعور اور پاکستان سے محبت کرنے والے دوستوں — امجد اقبال امجد، رانا راشد ڈیال اور میاں طارق شہزاد نے مل کر ایک ایسی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے جو پاکستانی کلچر کے فروغ کے لیے وقف ہے۔ اس تنظیم کا نام ہے آل پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن “۔

اس کا مقصد پاکستان کے متنوع ثقافتی ورثے کو نہ صرف محفوظ کرنا ہے بلکہ اسے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانا بھی ہے۔ یہ تنظیم مختلف صوبوں کی ثقافتوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاتی ہے، تاکہ ہم ایک دوسرے کی تہذیب سے واقف ہوں اور آپس میں ہم آہنگی کو فروغ ملے۔

آل پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن کے پلیٹ فارم سے قوالی، لوک موسیقی، علاقائی رقص، ہینڈی کرافٹس، فوڈ فیسٹیول، مشاعرے، اور ادبی و ثقافتی پروگرامز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم نہ صرف نوجوانوں کو اپنے ثقافتی ورثے سے جوڑنے کا کام کر رہی ہے بلکہ خواتین کو بھی بااختیار بنانے اور ہنر سکھانے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

ثقافت کا فروغ سیاحت، ہینڈی کرافٹس، فوڈ انڈسٹری، فیشن اور میڈیا کے شعبوں میں مواقع پیدا کرتا ہے۔ اگر حکومت اور نجی ادارے مل کر پاکستانی کلچر کو پروموٹ کریں تو یہ ملک کی معیشت میں مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں پاکستانی ثقافتی میلوں، قوالی پروگرامز، فوک میوزک فیسٹیولز، اور فیشن شوز کا انعقاد ہماری سافٹ امیج کو بہتر بناتا ہے۔

پاکستانی کلچر کا فروغ امن، ہم آہنگی اور برداشت کے فروغ میں بھی مدد دیتا ہے۔ ہمارے صوفی بزرگوں کی تعلیمات، جیسے داتا گنج بخش، بابا بلھے شاہ، شاہ لطیف بھٹائی، رحمان بابا، امن اور انسان دوستی کی عملی مثالیں ہیں۔ ان کی تعلیمات کو نئی نسل تک پہنچانا وقت کی ضرورت ہے۔

آخر میں، پاکستانی کلچر صرف تہواروں اور لباس تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل طرزِ زندگی ہے جو ہمیں انسان دوستی، اخلاص، محبت، قربانی اور خلوص کا درس دیتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں، میڈیا، سوشل میڈیا اور ایسی تنظیموں جیسے “آل پاکستان کلچرل ایسوسی ایشن” — جسے امجد اقبال امجد، رانا راشد ڈیال اور میاں طارق شہزاد نے مشترکہ طور پر قائم کیا — کے ذریعے پاکستانی کلچر کو زندہ رکھیں، فروغ دیں اور دنیا کے سامنے فخر سے پیش کریں۔ یہی ہماری شناخت ہے، یہی ہمارا فخر ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.