کائنات کے راز – ایرینڈل ستارہ

تحریر: محمد جمیل شاہین راجپوت کالم نگار و تجزیہ نگار

4

  کائنات کی وسعت اور پیچیدگی انسان کو ہمیشہ حیرت میں ڈالتی آئی ہے۔ ہر نئی دریافت، ایک اور دروازہ کھول دیتی ہے جو ہمیں تخلیقِ کائنات کے رازوں تک لے جاتی ہے۔ حالیہ دور میں دریافت ہونے والا ایک نہایت دُور اور روشن ستارہ — ایرینڈل (Earendel) — نہ صرف سائنسی دنیا کے لیے ایک حیرت کا باعث بنا، بلکہ اہلِ ایمان کے لیے غور و فکر کا ایک اور موقع فراہم کرتا ہے۔ یہ ستارہ ہماری سمجھ سے بہت دُور، مگر ہمارے مشاہدے کی رسائی میں آ چکا ہے، اور اس نے کائنات کی ابتدا، اس کے ارتقاء، اور اللہ کی عظمت کے حوالے سے کئی نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔

ایرینڈل کی دریافت – ایک سنگ میل
ایرینڈل کو سب سے پہلے ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ نے 2022ء میں دریافت کیا، مگر اس کی مکمل تفصیلات جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (JWST) کے ذریعے حاصل ہوئیں، جو ناسا، یورپی خلائی ایجنسی (ESA) اور کینیڈین اسپیس ایجنسی (CSA) کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
یہ ستارہ زمین سے تقریباً 12.9 ارب نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ یعنی ہم جو روشنی آج دیکھ رہے ہیں، وہ کائنات کے وجود میں آنے (Big Bang) کے صرف ایک ارب سال بعد کی ہے۔ ایرینڈل “سن رائز آرک” (Sunrise Arc) نامی کہکشانی نظام میں واقع ہے جو ایک gravitational lensing نامی فلکیاتی مظہر کی مدد سے نظر آیا، جس میں دور موجود روشنی کو ایک بڑی کہکشاں موڑ کر ہماری طرف بھیجتی ہے۔
سائز، درجہ حرارت اور چمک
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ سے حاصل کردہ ڈیٹا کے مطابق:
ایرینڈل کا سائز سورج سے 50 گنا زیادہ ہے۔
یہ سورج سے دو گنا زیادہ گرم ہے۔
اس کی روشنی سورج سے 10 لاکھ گنا زیادہ ہے۔
اس کا تعلق ان ابتدائی ستاروں سے ہو سکتا ہے جنہیں Population III stars کہا جاتا ہے — وہ ابتدائی ستارے جو کائنات کی پہلی نسل تھے اور جن میں بھاری عناصر موجود نہیں ہوتے تھے۔
روشنی کا سفیر
ایرینڈل کو gravitational lensing کے ذریعے دیکھا گیا، جو کہ ایک ایسا مظہر ہے جس میں کائنات کی کوئی بڑی کہکشاں یا مادے کا اجتماع پیچھے موجود روشنی کو موڑ دیتا ہے، اور ہمیں ورنہ نظر نہ آنے والے اجرام فلکی دیکھنے کا موقع دیتا ہے۔ یہ مظہر قرآن کے اس بیان کی طرف اشارہ کرتا محسوس ہوتا ہے:
⁠”أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ”
“کیا یہ لوگ آسمان کی طرف نہیں دیکھتے کہ ہم نے اسے کس طرح بنایا، آراستہ کیا اور اس میں کوئی شگاف نہیں؟”
(سورۃ ق: 6)
ایرینڈل کی دریافت اسی دعوتِ فکر کا عملی مظہر ہے۔ انسان آج ان دور دراز اجسام کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اعتراف کرنے پر مجبور ہے۔
قرآن اور کائنات کی ابتدا
ایرینڈل کے مشاہدے سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کی ابتدائی حالت میں ہی ستارے بننے لگے تھے، یعنی بگ بینگ کے صرف ایک ارب سال بعد۔ قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
⁠”أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا”
“کیا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین ایک بند حالت میں تھے، پھر ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کیا؟”
(سورۃ الانبیاء: 30)
یہ آیت نہ صرف بگ بینگ سے مماثلت رکھتی ہے، بلکہ یہ ہمیں اس بات کی بھی یاد دہانی کراتی ہے کہ ہر سائنسی حقیقت، دراصل اللہ کے بنائے ہوئے نظام کی تفسیر ہے۔
علم اور مشاہدہ – اسلامی تناظر
اسلام میں علم کا حصول ایک دینی فریضہ ہے:
⁠”طلب العلم فريضة على كل مسلم”
“علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔”
(ابن ماجہ)
ایرینڈل کی دریافت اس بات کی واضح مثال ہے کہ جب انسان علم و تحقیق کے سفر پر نکلتا ہے تو وہ نہ صرف کائنات کے رازوں تک پہنچتا ہے بلکہ خالقِ کائنات کی عظمت کو بھی بہتر انداز میں سمجھ سکتا ہے۔
عبرت و بصیرت کا پیغام
قرآن بار بار کائنات کی نشانیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے:
⁠”وَفِي السَّمَاءِ رِزْقُكُمْ وَمَا تُوعَدُونَ”
“اور آسمان میں ہے تمہارا رزق اور وہ (نعمتیں) جن کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔”
(سورۃ الذاریات: 22)
اور:
⁠”إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ… لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ”
“بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں… عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔”
(سورۃ آل عمران: 190)
ایرینڈل جیسے مظاہر ہمیں یہ باور کراتے ہیں کہ آسمان صرف مشاہدے کی چیز نہیں، بلکہ بصیرت اور ایمان کی گہرائی کا ذریعہ بھی ہے۔
نتیجہ: سائنس اور ایمان – ایک ساتھ
ایرینڈل ستارہ نہ صرف ایک سائنسی کارنامہ ہے بلکہ یہ ایک روحانی نشان بھی ہے، جو انسان کو اپنے خالق کی حکمت، کائنات کی پیچیدگی، اور علم کی حدود کا احساس دلاتا ہے۔ ہر نئی دریافت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سائنس اور ایمان ایک دوسرے کے مخالف نہیں، بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں — بشرطیکہ ہم علم کو معرفتِ الٰہی کی طرف لے جانے کا ذریعہ بنائیں۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.