کچے کے ڈیجیٹل ڈاکو، فوجی آپریشن ناگزیر ہوچکا

156

تحریر: رانا ذوالفقار علی

کچے کے علاقے میں موجود ڈیجیٹل ڈاکوؤں نے جس طرح عوام اور پولیس کا ناک میں دم کر رکھا ہے ان کے خاتمے کے لیے ملٹری آپریشن ناگزیر ہو چکا ہے، پوری قوم ان سے چھٹکارہ پانے کیلئے فوج کیطرف دیکھ رہی ہے ۔ کچے کا یہ علاقہ تین صوبوں کی سرحدوں کا لنک اور یہاں موجود ان ڈاکووں اور دہشت گردوں کی آماج گاہ بن چُکا ہے جہاں آئے روز اغوا برائے تاوان اور قتل و غارتگری کا بازار گرم ہے ۔

پاکستان کے کچے کے علاقے میں ڈاکو پچھلے کئی سالوں سےامن و استحکام کو تباہ برباد کر رہے ہیں۔ یہ خطہ پاکستان کے tri-border علاقے میں واقع ہے جہاں تین صوبوں کی سرحدیں ملتی ہیں ، پنجاب، سندھ اور بلوچستان۔ کچے کے یہ ڈاکو گروہوں کی شکل میں کام کرتے ہیں، جیسے شر، جاگیرانی، تیگانی، کوش، آندھرا، بھیو، اور جتوئی گروہ اور چھوٹو گینگ وغیرہ شامل ہیں ۔

ایک رپورٹ کیمطابق بلوچستان اور کے پی کے کے دہشت گرد اس خطے کو اپنی محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس میں انہوں نے اپنے بھرتی کیمپ بناتے ہیں۔ فرقہ وارانہ تنظیمیں اور فتنہ الخوارج کے دہشت گرد بھی اس علاقے کو اپنے ٹھکانے کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔

گزشتہ سال ایک اخبار ڈان کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق، قبائلی تنازعات کے نتیجے میں بالائی سندھ میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے غیر قانونی جرگوں کا انعقاد بھی کیا جاتا ہے، جہاں قبائلی سردار اور دوسرے طاقتور لوگ مقدمات کا فیصلہ بھی کرتے ہیں۔
کچے کے علاقے کے ڈاکوؤں کی وجہ سے علاقہ اور اس کے اطراف کے اضلاع میں جرائم کی شرح میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ مثال کے طور پر سال 2022-2023 میں رحیم یار خان میں جرائم کی شرح آسمان کو چھو رہی تھی۔ ایچ آر سی پی کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سال 2022 کے دوران کچے کے علاقے میں ڈاکوؤں نے 300 افراد کو تاوان کے لیے اغوا کیا تھا۔ سال 2023 میں 218 افراد کو اغوا کیا گیاّ۔ کچے کے علاقے کے یہ ڈاکو پاکستان کے معاشی سفر کو مسلسل ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ایچ آر سی پی کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ یہ *ڈاکو سالانہ اربوں روپے تاوان کی رقم کے طور پر لوٹتے ہیں۔ اب تو اغوا برائے تاوان کی بے شمار ویڈیوز عوام بھی دیکھ چکی ہے ۔

سینیٹ باڈی کے مطابق کچے کے علاقے کے ڈاکووں کے بارے سندھ کے پانی کے حصص فروخت کرنے میں ملوث ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ یہ ڈاکو CPEC کے منصوبوں میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں کیونکہ وہ CPEC کے روٹس پر مجرمانہ سرگرمیاں کر رہے ہیں، جس کی وجہ سےکئی مرتبہ رات کو موٹروے بند کی گئی۔

کچے کے ڈاکو جارحانہ طور پر مسلح ہوتے ہیں اور اکثر مقامی پولیس فورس سے زیادہ جدید ہتھیار لے جاتے ہیں، جن میں ہیوی مشین گن، اینٹی ایئر کرافٹ گن، آر پی جی، اور سب مشین گنز ایس ایم جی شامل ہیں ۔

کچے کے علاقے میں 2006 سے اب تک *چھ بڑے آپریشن کیے جا چکے ہیں۔مزید تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ ان ڈاکوؤں نے ایک یوٹیوب چینل بھی بنا رکھا ہے، جہاں وہ عوام سے رابطہ کرتے ہیں۔ یہ ڈیجیٹل دہشت گردی کی عکاسی ہے۔
*اگست 2024 میں رحیم یار خان میں ان ڈاکوؤں کے RPG حملے میں 12 پولیس اہلکار شہید ہوگئے تھے۔

خطرے کی شدت کو دیکھتے ہوئے، پاک فوج کو ان ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے لیے براہ راست ٹھوس اور مستقل کارروائی کرنی چاہیے۔ اور کچے کے علاقے میں ٹریننگ ایریا بھی بنانا چاہئیے تاکہ یہ ڈاکو دوبارہ سر نا اُٹھا سکیں ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.