پنڈ وسیا نئی ، اُچکّے پہلے آ گئے
پنجاب کے دیہات کی زندگی بڑی زرخیز رہی ہے ،جو مثالیں اور محاورے پنجابی زبان کے دانشوروں نے دیئے انکا کہیں کوئی نعم البدل نہیں ملتا
امریکا اور برطانیہ کےدانشور ،ادیب ،شاعر سیاستدان اور قانون دان بھی پنجابی کےمحاوروں کے دلدادہ نکلے ۔ہمارے ہاں تو بہرحال رونق لگی رہتی ہے
ابھی کچھ دن پہلے ایک مالیاتی ریٹنگ ایجنسی نے واضح طور پر حکومت کی تبدیلی کے بارے میں پیشن گوئی کرتے ہوئے اپوزیشن رہنما بانی پی ٹی آئی عمران خان کے بھی بدستور جیل میں رہنے کی خبر دی ہے
یہ معاملہ بھی پنجابی کے اس محاورے کے مصداق نکلا کہ “پورا پنڈ مرجائے پر تو نمبر دار نئی بن سکدا”یہ محاورہ اس کہاوت سے منسوب ہے جس میں میراثیوں کا برخوردار اپنے بزرگ سے پوچھتا ہے کہ اگر گائوں کا نمبردار مرجائے تو ۔۔۔بزرگ میراثی کہتا ہے کہ اس کا بیٹا اسکے بعد اسکے چچا کا بیٹا پھر فلاں رشتے دار ،پھر فلاں ،مراثی جوان کے پرتجسس سوالات پر اس کا بزرگ اسکی نمبردار بننے والی خواہش کو بھانپ گیا اور برجستہ گویا ہوا کہ “پورا پنڈ مرجائے پر تو نمبر دار نئی بن سکدا”یعنی پورا گائوں بھی وفات پاجائے پھر بھی نمبر دار مراثی کا بیٹا نہیں بن سکتا ۔اسی طرح اب کسی کے خواب دیکھنے یا کوئی خواہش رکھنے پر تو پابندی نہیں لگائی جاسکتی ۔
تحریک انصاف جن حالات میں بنائی گئی بے شمار ساتھی اسی طرح اعلانیہ ساتھ چھوڑ گئے اب جو بچے کچھے لوگ کسی طور دائو لگانے کی تاک میں ہیں اور اس کے لئے لازمی طور پر حالات بھی سازگار ہونے چاہئیں جو اتفاق سے اب اس نہج پر آگئے ہیں ،پی ٹی آئی کے کچھ رہنمائوں کی جانب سے حکومت گرانے کی بات ہورہی ہے اور عدم اعتماد کی تحریک لانے کے حوالے سے الیکشن کمیشن کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عملدرآمد کی راہیں نکلتی نظر آرہی ہیں جس کے تحت تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں ملنے کا واضح امکان ہے ۔
تاہم دوسری طرف سپریم کورٹ کے اس حالیہ فیصلے پر نظر ثانی کیلئے کئی درخواستیں بھی دائر ہوئی ہیں۔اس حوالے سے ایک نیا موڑ اب آیا جب پاکستان پیپلز پارٹی نے مخصوص نشستوں والے معاملے پر سپریم کورٹ میں نظر ثانی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کر لیا۔پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی سینئر قیادت کے درمیان گزشتہ روز ملاقات ہوئی تھی جس میں طے ہوا کہ پیپلزپارٹی بھی سپریم کورٹ کی مخصوص نشستوں کے حوالے سے 12 جولائی کے فیصلے پر نظرثانی کے لئے اپیل دائر کرے گی۔ پیپلز پارٹی نے اپیل تیار کرنے کے لئے سینیٹر فاروق نائیک کو ہدایات دیدی ہیں، غالب امکان یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے یہ اپیل آئندہ ہفتے سپریم کورٹ میں دائر کی جائے گی۔
پاکستان پیپلزپارٹی اس اپیل میں سپریم کورٹ سے استدعا کرے گی کہ عدالت اپنے فیصلے پر نظرثانی کرے۔دوسری طرف خود تحریک انصاف کے کئی گروپ سامنے آرہے ہیں ،کسی گروپ کاپالیسی بیان دوسرے سے مطابقت نہیں رکھتا ،ان میں سب سے بڑا گروپ بہرحال وہی ہے جس کو سابق چیئرمین عمران خان کی حمایت حاصل ہے ،اور عمران خان نے تو واضح طور پر پیپلزپارٹی کے ساتھ حکومت گرانے کیلئے کسی بھی طریقہ کار پر چلنے سے انکار کیا ہے دوسرا انہوں نے پتے کی بات یہ کی ہے کہ “پیپلزپارٹی سے تو بات تب کروں جب میں نے اقتدار میں آنا ہو”ان حالات میں ہمیں نہیں لگتا کہ کوئی دوسرا گروپ یا فارورڈ بلاک ملکر ن لیگ کی حکومت گرانے کا مرحلہ طے کرسکے اس حوالے سے جو دعوے کئے جارہے ہیں وہ سراسر پنجابی کے اس محاورے کی عکاسی کرتے ہیں کہ.” پنڈ وسیا نہیں اُچکّے پہلے آ گئے”یعنی گائوں ابھی بسا نہیں اور لوٹ مار کرنے کیلئے لٹیرے پہلے پہنچ گئے ہیں ۔حکومت گرانے کا نعرہ مستانہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں ،میڈیا تک اسکی تشہیر کر دینا قدرے اہم ضرور ہے مگر حالات ایسے نہیں ہیں کیونکہ “بندے “ملنے کی صورت جس جماعت کے ساتھ ملکر اقتدار کی تبدیلی کا کھیل کھیلنے کا غلغلہ ہے وہی جماعت انکے “بندے”ملنے سے روکنے کے کھیل میں فریق بن رہی ہے ۔اس پر ابھی وقت لگے گا دوسرا جو “بندہ “اس کھیل کا مرکزی کردار ہوسکتا تھا وہی اب شائد اپنی جماعت پر پابندی کے شور میں پیپلزپارٹی کے کسی بھی کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر رہا ہے ۔بہرحال وجہ کوئی بھی ہو حالات و واقعات سے یہ بات ثابت ہورہی ہے کہ حکومت گرائے جانے کا معاملہ “ہنوز دلی دور است “کے مصداق ہے ۔