عظیم شخصیت الطاف حسن قریشی

35

تحریر: رخسانہ رخشی، لندن

عظیم ہیں وہ ہستیاں کہ جن کی شخصیت کی تصدیق ان کی بہت سی خوبیوں اور صفات سے ہوتی ہے۔ ایک شخصیت کی خوبیاں اگر معاشرے کے کسی بھی شعبے کی خدمت کردے اور خدمت کا سلسلہ بھی طویل تر ہو تو وہ شخص پھر عظیم ہستی کی صورت اپنی پہچان بنا لیتاہے۔ ان کا قلم وسیع تر موضوعات پر چلتا رہتا ہے۔ ایسی ہستیاں اپنی تخلیقی ذ ہن سازی سے پھر وہ وہ کام کرتی ہیں کہ معاشرے سے لے کر ملکوں، ملکوں ان کے قلم اور موضوعات کا شہرہ ہو جاتا ہے۔ ہم ذکر کر رہے ہیں اردو ڈائجسٹ کے روح رواں عظیم ترین شخصیت الطاف حسن قریشی صاحب کا کہ جنہوں نے اپنی طویل تر صحافتی زندگی میں کئی معاشرتی ، ملکی اور سیاسی اذہان کی صحافتی خدمات اور قلم کے ذریعے غمازی کی ہے کہ سیاستدانون سے لے کر عوام اور بیوروکریٹ سے لےکر ملک کے حساس اداروں تک کبھی تکرار اور کبھی اتفاق رائے سے خراج تحسین پیش کرتے رہے۔ الطاف حسن قریشی کا قلم ہمیشہ اپنے قارئین کو حقیقت حال سے آگاہ رکھنے میں بھرپور کوشش کرتا رہا۔ انہوں نے اپنی بہت سی تحاریر میں یہ باور کرایا کہ وہ اپنے ملک کے سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات کو بااختیار دیکھنا چاہتے ہیں۔ حالیہ ملکی حالات ہم سب دیکھ رہے ہیں اس اہم نکتے کو آج شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے۔ ملک کے حالات اور سیاستدان کیسے مجبور دکھائی دیتے ہیں۔ الطاف حسن قریشی کے قلم نے مختلف النوع موضوعات پر لکھ کر وسیع تر تخلیقی بنیاد قائم کی جس میں پاکستانی حالات کی تاریخی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ آپ کی تحریر نے ہر خاص و عام کو ہمیشہ متوجہ رکھا تو وہیں آپ کی شخصیت کے متاثرین بھی بے حد ہیں۔ آپ کے قلم کی توانائی سے تحریر میں دم ہوتا ہے اور یہ دم آپ کے دماغ و ذہن کی بیداری ہے جو ماشا اللہ 90برس کی عمر میں بھی رواں دواں ہے۔ عصر حاضر ہو، ماضی کے حالات ہوں یا پھر پاکستانی تاریخ کے حالات و واقعات ہوں ان کے حافظے میں سبھی محفوظ ہیں۔ ایسی خاک و دھول چھاننا صحافتی عرق ریزی کہلاتا ہے جو بلاشبہ انہیں کا خاصہ و مرتبہ ہے۔ ایسا بھی ہوا کہ الطاف حسن قریشی صاحب کی عام عوام سے قلم کے ذریعے طویل سی نیاز مندی ہو گئی یہ تعلق کئی دہائیوں کے فاصلے عبورکرتا، تاحال قائم ہے۔ ہمارا ان سے غائبانہ اور جذباتی لگائو تو ہماری اوائل عمری سے تھا کہ اردو ڈائجسٹ اور الطاف حسن قریشی صاحب کا سانس اور دل کا رشتہ یعنی لازم و ملزوم سا ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ کے ہاتھ سے لگا پودا تناور شجر کی صورت اختیار نہ کرے۔ تو ہوا یوں کہ کسی محفل میں معلوم ہوا کہ ابھی الطاف صاحب کا انتظار ہو رہا ہے پھر باقاعدہ تقریب کا آغاز ہوگا۔ آپ کا نام سنتے ہی ہمیں تو دل سے ان لمحوں کا اور گھڑیوں کا بے صبری سے انتظار ہونے لگا کہ کب وہ تشریف لائیں اور ہم انسے اپنی کیفیت بیان کریں کہ ہم کسقدر انکی شخصیت سے متاثر ہیں اور نوعمری سے ہی اردو ڈائجسٹ اور آپ کی تحریر سے متاثر ہیں نیز یہ پاسداری آج بھی قائم ہے۔ پھر ملاقات پر ہم نے ان سے اردو ڈائجسٹ اور ان کی تحایر سےمتعلق خوب باتیں کیں، ان کے انٹرویوز اورلوگوں کے ساتھ ہوئے ان کے مذاکرات پر بات ہوئی پھر پاکستانی مختلف ادوار اور سیاسی صورت حال پر بھی اور انکی صحافتی زندگی کے اہم اور دلچسپ یادگار لمحات پر بھی بات ہوتی رہی ۔ اردو ڈائجسٹ کی اشاعت کی بابت بھی بات ہوتی رہی۔ غرض اس ایک ملاقات میں بے حد موضوع زیر بحث رہے۔ کہیں سے بھی محسوس نہ ہوا کہ ہماری سوچ اور نظریات مختلف ہیں۔الطاف حسن قریشی صاحب کی شخصیت ایسی ہے کہ گھنٹوں باتیں کرتے رہیں مگرکبھی آپ بور نہیں ہوتے۔ کیونکہ پاکستان بننے سے لیکر پاکستان کے دو حصے ہونے اور اسکے بعد تک کے حالات سے آپ اس قدر واقف ہیں کہ بہت سے پاکستانی یہ ہی یقین رکھتے ہیں کہ جو معاملات قریشی صاحب کو معلوم ہیں وہی سچے اور قابل قبول ہیں۔ باقی لوگ بھی ان حالات کی بابت لکھتے ہیں مگر یقین صرف قریشی صاحب کی سچی باتوں پر ہی کیا جاتا ہے۔ یہ بھی بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان کے ہر قسم کے حالات و اتار چڑھائو کے چشم دید گواہ صرف قریشی صاحب ہیں۔الطاف حسن قریشی صاحب کے آبائو اجداد کا تعلق بھی مکتبہ فکر سے تھا اور ہمارے آبائو اجداد کا بھی ایس ہی سلسلہ رہا ہے۔ آپ کی کتابیں اس قدر اہم ہیں کہ ہم نے انہیں اپنی عام لائبریری کی بجائے خاص شیلف میں سجا رکھی ہیں ہم انہیں اپنے استاد کا مقام و مرتبہ سے نوازتے ہیں۔ آپ صحافت کے وہ مبلغ ہیں کہ جن کی تبلیغ سے بہت سے صحافی بھی مقام حاصل کرگئے اور ان کے مقام کی روشنی سےضیا پا گئے۔اردو ڈائجسٹ کا ایک خاص عنوان ’’پردہ اٹھنا ہے اور یہ نامے میرے نام آتے ہیں‘‘ اس میں آپ قریشی صاحب کی خاص اردو اورخاص موضوع پر دلچسپ خطوط پڑھنے کو ملتے تھے پھر وہی سب پڑھ کر ہم نے بھی بہت کچھ سیکھا۔ اسی ایک موضوع اور اسکے تحت لکھے جانے والے مضامین نے بہت سے لکھنے والوں کے ذہن کو جلابخشی۔ آپ ہی کے قلم کی روانی دیکھ کر ہم جیسے لکھنے والوں کے قلم نے بھی روانی پکڑنے کی کوشش کی۔ الطاف صاحب سے ہمارا قلمی رشتہ تب ہی سے قائم ہو گیا جب اوائل عمری میں ہمارے ہاتھ میں اردو ڈائجسٹ کے وہ شمارے آئے جس میں خاص مضامین نے ہمارے اندر بھی لکھنے کی جوت جگائی۔ ایسے مضامین کے مطالعہ کے بعد ہمارے شعور نے بھی پرت در پرت کھلناشروع کیا۔ الطاف صاحب کی اردو سے متعلق خدمات کو اور انکی شخصیت کو دبستائی بستے میں ملفوف کر دیا جائے اور حنوط بھی کہ ایسی ایسی ہستیاں خال خال ہی پیدا ہوتی ہیں کہ عمر کے اس حصے میں بھی کمال کی یادداشت اور قلم میں طاقت ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.