زندگی کی ڈور نہ ٹوٹنے پائے

148


بسنت یا پتنگ کا تہوار بھارت اور پاکستان دونوں جانب خصوصی پنجاب کی ریاستوں میں بے حد مقبول ہے ۔
بہار کی آمد کو کیونکہ خوشیوں کی نوید سمجھا جاتا تھا اور تاریخی طور پر یہ تہوار راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں بہار کا خیر مقدم کرنے کے لیے منایا جاتا تھا
کہتے ہیں کہ خوشی کے اظہار کا یہ تہوار مذہبی تقریبات کے لیے منایا جاتا تھا ۔رفتہ رفتہ ان خوشیوں نے میلوں اور جشن کی شکل اختیار کرلی
اور پتنگ بازی کی شمولیت سے یہ کھانوں ،پھولوں ،پیلے لباسوں اور دعوتو ں کےساتھ ساتھ پتنگ بازی کا یہ تہوار اور یہاں کی ثقافت کا حصہ بن گیا ۔
گو پتنگ بازی ایک اایسا شغل ہے جو دنیا بھر میں پایا جاتا ہے پاکستان میں تو پتنگ سازی
ایک چھوٹی سی صنعت کی شکل اختیار کرچکی ہے ۔
بسنت کا تہوار پتنگ بازی سے منسلک کردیا گیا ہے یہاں تک کہ پاکستان کے شہروں اور
دیہاتوں میں تو پتنگوں کے میچ اور مقابلے رکھے جاتے ہیں
بڑی بڑی شرطیں لگائی جاتی ہیں جو جوے کےزمرے میں آتی ہیں جس کے لیے پورے سال
خوب ذوق وشوق سے تیاریاں کی جاتی ہیں ۔
کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ کھیل تماشے کا شوق ایک دن انسانی جانوں کے لیے موت کا پیغام بن جائے گا ۔پتنگ بازی ایک کھیل تک محدود رہتا تو یہ تفریح کا سامان تھا
مگر ہر کھیل کے کچھ قواعد وضوابط بھی ہوتے ہیں بدقسمتی سے مقابلے اور شرطوں کی
وجہ سے تمام قواعد وضوابط بالائے طاق رکھ دئیے گئے
اور یہ محبتوں اور پیار کا کھیل اور مشغلہ کئی غیرقانونی طریقوں کے استعمال کی وجہ سے جان لیوا بنتا چلا گیا
اور انتہائی خطرناک کھیل بن چکا ہے
ایک ایسا کھیل جو جس میں کھلاڑی اپنا نقصان کم جبکہ دوسروں کا نقصان زیادہ کردیتے ہیں ۔
یہ کھیل بہت سی معصوم زندگیوں کے چراغ گل کر چکا ہے
جس کی بدولت یہ کھیل اب جرم بنتا جارہا ہے محبتوں کا یہ کھیل نفرتوں میں ڈھلتا جارہا ہے
جبکہ پتنگ سازی اور پتنگ بازی ایک ایسا مافیا بن چکا ہے جو کسی پابندی کی پروا کئے بغیر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے
قانون ہی نہیں بلکہ ہمارا مذہبی طبقہ بھی پتنگ بازی کو کھیل تماشا اور پیسوں اور وقت کا ضیاع سمجھتا ہے
اور بسنت کو ایک ہندوانہ رسم قرار دیتا ہے ۔

پتنگ بازوں اور ڈور مافیا نے ایک اور قتل کر ڈالا۔فیصل آباد کے علاقے ریلوے کالونی سمن آباد کا یہ بائیس سالہ نوجوان آصف اشفاق بیچارا گھر سے افطاری کا سامان لینے موٹر سایکل پر نکلا
اور پتنگ بازی کا شوق رکھنے والوں اور یہ لالچی کاروبار کرنے والوں کی بےحسی ،خودغرضی
اور وحشت کا شکار ہوکر گلے پر ڈور پھرنے سے جان کی بازی ہار گیا
یہ وہ ظالم ہیں جنہوں نے عید سے چار روزبعد دولہا بننے والےاس خوبصورت نوجوان کی ماں کو
تادم مرگ آنسو بہانے پر مجبور کردیا ہے
کہتے ہیں ایک غریب مزدور ہونے کے باوجود وہ بہت ہی کم گو تمیزدار اور بااخلاق نوجوان تھا
اس کے مرنے کے بعد ایسے ایسے لوگ اس کے والدین کے پاس آکر اس کی یاد میں آنسو بہا رہے ہیں
جن کو وہ جانتے بھی نہیں
ہر ایک اس کے اچھے اخلاق کا گرویدہ تھا ۔بسنت اور پتنگ بازی کے شوق کے ہاتھوں جان دینے والا
یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے بڑے عرصے سے اس طرح کے واقعات سنتے چلے آئے ہیں
حیرت یہ ہے کہ ہماری حکومت اور ہم خود اس معاملے اور اس کی روک تھام کے سلسلے میں
اتنے بےبس اور مجبور کیوں ہیں ؟بسنت کے نام ہونے والا یہ پتنگ بازی کا کھیل
کب تک ہمارے پیاروں کی جانیں لیتا رہے گا ؟ کسی کی جان کو خطرے میں ڈال کر خوشی منانا کب اچھا لگتا ہے ؟
پتنگ بازی میں استعمال ہونے والی ڈور کئی اقسام کی ہوتی ہے
پتنگ اڑانے اور پیچ لڑانے والے شوقین افراد پتنگ گٹنے سے بچانے کے لیے ڈور کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنانے کے لیے
اس پر ایک خاص قسم کا “مانجھا ” استعمال کرتے ہیں جو شیشے کے کانچ کے پاودر سے بنایا جاتاہے
جب یہ مانجھا زیادہ مقدار میں استعمال کیا جاے تو پتنگ کی ڈور کو ایک تیزدھاری آلے میں تبدیل کردیتا ہے
جب کوئی پتنگ کٹتی ہے
تو اس کے ساتھ جڑی کئی گز لمبی کانچس کے مانجھے سے بننےوالی ڈور پتنگ کے وزن کے ساتھ
تیزی سے ساتھ فاصلہ طے کرتی ہوئی موت بن کر اور بےلگام ہوکر نکل کھڑی ہوتی ہے
اور اپنی زد میں آنے والے ہر شخص کے لیے موت کا پیغام بن جاتی ہے ۔موٹر سایکل اورسائیکل سوار
افراد کو خاس طور پر اس بےلگام کانچ کی ڈور کی زد میں آنے کے خطرات بہت زیادہ لاحق ہوتے ہیں
کیونکہ ان کی رفتار بھی تیز ہوتی ہے جس کی باعث اس باریک ڈور کو دیکھنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے
اور اس طرح وہ اس ڈور کی لپیٹ میں آسانی سے آجاتے ہیں جو ان کے گلے کے گرد لپٹ کر
جب ایک جانب کھنچتی چلی جاتی ہے تو کسی تیزدھار آلے کا کام کرتی ہے
اور گلا کٹنے کی وجہ سے یا زیادی خون بہنے کی وجہ سے اب تک بےشمار ہلاکتیں ہو چکی ہیں ۔
اب تو کانچ کے مانجھے والی ڈور کے ساتھ ساتھ اس ڈور کے آگے کچھ فٹ دھاتی یا نائیلوں کی تار
بھی استعمال کرتے ہیں
موت کا یہ کھیل اور بھی دردناک ہوجاتا ہے جب یہ دھاتی تاریں بجلی کی تاروں سے ٹکراتی ہیں
تو پتنگ لوٹنےوالے کئی افراد کرنٹ لگنے سے بھی مر جاتے ہیں یا پھر زخمی ہوکر زندگی بھر
معذوری کا عذاب جھیلتے ہیں
ان پتنگ لوٹنےوالوں میں زیادہ تر وہ بچے ہوتے ہیں جو کٹی پتنگ لوٹنے کی کوشش میں
اس کے پیچھے بھاگ رہے ہوتے ہیں اسی کوشش میں بہت سے شوقین بچے چھتوں اور
درختوں سے گر کر بھی مر جاتےہیں ۔
پتنگ بازی کے دوران ہونے والے چھوٹ چھوٹے باہمی لڑائی جھگڑے اور تلخیاں اکثر
طویل دشمنیوں میں بھی بدل جاتے ہیں
پنجاب میں پتنگ بازی پر ممانعت کا قانون موجود ہے
جس کے تحت پنجاب میں پتنگ اڑانے کے ساتھ ساتھ پتنگ بنانے اور یا اس کو اڑانے والی ڈور بنانے
اور اس میں مانجھا استعمال کرنے پر مکمل پابندی ہے
اور پنجاب میں پولیس ایسے افراد کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو پتنگ اڑانے بنانے
یا ڈور وغیرہ استعمال کرنے کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں یا جن کا روزگار اس پیشے سے وابستہ ہوتا ہے
۔پولیس کے ترجمان کے مطابق بےشمار کریک ڈاون اور گرفتاریوں کے باوجود تمام سال
اور خصوصی طور پر موسم بہار یعنی بسنت کے دنوں میں یہ سختی مزید بڑھا دی جاتی ہے
تاہم یہ سب کچھ اس بڑے پیمانے پر ہوتا ہے کہ پولیس کے لیے سو فیصد روکنا مشکل ہوتا ہے
کیونکہ پولیس کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ ہر گھر کی چھت پر جاکر دیکھ سکیں یا تلاشی لے سکیں ۔
اس لیے حکومتی اقدامات کےساتھ ساتھ عوام میں آگاہی مہم چلانے اور انہیں اس کے نقصان سے
خبردار کرنے لیے سرف پولیس اور حکومت ہی نہیں بلکہ ہم سب کو انفرادی اور اجتماعی طورپر
شعوری بیداری کے لیے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے
جس کے لیے سول سوسائٹی ،این جی اوز،سماجی ومذہبی جماعتوں اور خاص طور پر میڈیا کو آگے آنا ہوگا
تاکہ انسانی جانوں کا یہ ضیاع رک سکے پولیس کو چاہیے کہ
موٹرسایکل سواروں کو ہدایات جاری کریں کہ وہ موٹر سایکل کے آگے حفاظتی انٹینا ضرور لگوا لیں
تاکہ ڈور سے بچ سکیں ۔
یہ ریاست کےساتھ ساتھ ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ا پنے اردگرد پتنگ بازوں کو سمجھائیں کہ
ان کا یہ چند منٹ کا شوق کسی گھر میں صف ماتم بچھا سکتا ہے اور باز نہ آنے والوں کی اطلاع
متعلقہ اداروں کو دیں بلکہ ہمارے مسجد منبر سے بھی ا س کے خلاف آواز اٹھنی چاہیے ۔
ہماری ریاست کو تو چاہیے کہ وہ پاکستان بھر میں پتنگ بازی کی صنعت پر عائد
پابندیوں کے بارے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کراے تاکہ مزید کوئی ماں کا لال
اس کی زد میں آکر جان نہ گنوا دے
پتنگ بازی کی آڑ میں موت کا کھیل ہرگز نہ کھیلنے دیا جاے ۔بسنت کا تہوار ضرور منائیں پھول بانٹیں ،
جھومیں ناچیں خوشی کے گیت گائیں ڈھول ڈھماکہ ،آتش بازی کے مظاہرے کریں
بہار کا خیر مقدم کریں کھانوں دعوتوں اور جشن کا انتطام کریں مگر اس تہوار سے صرف پتنگ بازی کو نکال دیں ۔ بسنت کی خوشیوں کے دوران ہوائی فائرنگ کے واقعات بھی دیکھنے آتے ہیں
جو کو ئی قانونی یا اخلاقی جواز نہیں رکھتے اور بسا اوقات کسی حادثے کا وجہ بن سکتے ہیں
اس عمل سے اجتناب ہماری اور ہمارے ماحول بقا پوشیدہ ہے

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان

27/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-6-scaled.webp


جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.