نوابوں کے دیس میں

تحریر : خالد غورغشتی

4

ہماری اکثریت ایسی ہے، جن کے اوڑھنے بچھونے اور سوچنے کا انداز آسمانوں کو چُھوتا ہے؛ حالاں کہ وہ رہتے زمین پر ہیں اور اُنھیں جانا تہہِ خاک ہے۔

اس کی تمثیل یوں سمجھیں کہ ہمارے گھروں کے باہر نالیوں، گلیوں، راستوں میں جگہ جگہ گندے پانی اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ہوتے ہیں اور ہم ان کی بدبو اور تعفن کو محسوس کر کے بھی صفائی کی کوشش نہیں کرتے، اِن دنوں وزیر اعلیٰ صاحبہ نے اَحسن قدم اٹھاتے ہوئے راستوں سے کُوڑا کرکٹ کے خاتمے کے لیے تاریخ ساز مُہم کا آغاز کیا ہے۔ جس کے دُور رس نتایج برآمد ہوں گے لیکن ہمارے بعض دیہاتوں میں کُوڑا کرکٹ کے لیے رکھے ڈرمز کو جس طرح عوام نے گھروں کے کچرے پھینک پھینک کر بھر دیا ہے اور ان کے گرد غلاظت ہی غلاظت نظر آتی ہے؛ ایسا لگتا ہوتا ہے جیسے ہم بنے ہی بدبو کے گرد رہنے کے لیے ہوں۔

ہمارے ہوٹلوں کے گرد اکثر ڈھیر ہوتے ہیں، جنھیں دیکھ کر ہی دور سے گِھن آئے مگر افسوس ہم وہیں بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مٹھائی، بسکٹ اور دیگر بیکری کی اشیا جہاں تیار ہوتی ہے، وہاں جگہ جگہ گندگی اور مکھیوں کے لشکر کی یلغار سے یوں محسوس ہوتا ہے؛ جیسے یہ خالصتاً ہمارے کھانے پینے کی اشیا کے لیے اُتری ہوں۔

آپ کسی بھی ہوٹل میں چلے جائیں، آپ کو محسوس ہوگا، کس طرح ہم کھانے کا ضیاع کر کے اس کی نا قدری کر رہے ہیں ہوتے ہیں، یہی نہیں ہوٹلوں میں جس طرح سے کھانا تیار ہوتا ہے اور مردار گوشت کی دھڑا دھڑ کڑائیاں تکے، قورمے، بریانیاں بنتی ہیں، اس کی کہیں دنیا میں مثال نہیں ملتی۔

آج کل مُضر صحت جنک فوڑذ کا بھی کاروبار خُوب چل پڑا ہے۔ پہلے ہم پیزہ، برگر، شوارمے اور دیگر فاسٹ فوڈ کو پوچھتے تک نہ تھے اب اتنے اِن کے ہوٹلز اور کیفے کُھل گئے ہیں کہ کوئی علاقہ بہ ظاہر ان سے خالی نظر نہیں آتا۔ دو سے تین ہزار کا پیزا کھانے والے کیا جانیں ان کے اردگرد پندرہ روپے کی روٹی کے لیے کتنے لوگ ترس رہے ہیں؟

کسی نے بڑی عجیب بات کی کہ آج کل جتنے کا ایک پیزہ آتا اتنے کی ایک من گندم ملتی ہے؛ ہم ایک ہفتہ پیزا نہ کھائیں تو ایک پورے خاندان کو ان پیسوں سے سال بھر کے لیے گندم خرید کر دے سکتے ہیں۔

اسی طرح چائے کے ہوٹل یا ڈھابے بھی ہیں، جن پر اگر کوئی بیماری نہیں، ایک بار ان کا رُخ کر کے دیکھ لے، مکھیوں کی بِھنبِھناہٹ میں جب ایک ہی پتی سے دس دس بار چائے تیار کرتے ہیں اور بعض جگہ چینی کی جگہ شِکَرِین کا استعمال کرتے ہیں تو بڑے بڑے پہلوانوں کی صحت چند دن کے اندر کسی نہ کسی جسمانی عارضے کا شکار ہو جاتی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ مضر صحت چائے کو چھوڑ دیں، الٹا ڈاکٹروں کے چکر کاٹ کر، دوا کھا کھا کر مزید بربادی صحت کا شکار ہو جاتے ہیں۔

اسی طرح کولڈ ڈرنکس کا ہمارے گھروں میں بے تحاشا استعمال بڑھ رہا ہے، جس سے بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی متعدد بدنی امراضِ کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے۔

اب تو کسی کے گھر کوئی مہمان آئے یا مہمان بن کر جائے، یہی کولڈ ڈرنکس پیش کی جاتی ہیں۔ نہ جانے ہم کب تک بیماریاں خرید کر خود کو بلاوجہ پریشان کرتے رہیں گے؟

ویسا اچھا موقع ہے، اگر پیزے برگر، کولڈ ڈرنکس، ہوٹلوں کا کھانا اور بیکری کی اشیا کا ہم مکمل بائیکاٹ کر لیں تو کئی مُہلک امراض سے بچ سکتے ہیں۔

اِسی طرح بعض علاقوں میں کٹوے پکانے کا رواج ہے، جس میں موجود زیریلے مصالحے اور ناقص گھی کے استعمال سے اکثر لوگ بیمار پڑ جاتے ہیں، عوام کٹوے جیسے مُضر صحت کھانے کا مکمل بائیکاٹ کریں۔ ان کھانوں سے سوائے بیماریوں کے کیا نکلتا ہے؟ زیادہ ہی گوشت کھانے کا شوق ہے تو گھروں میں بُھون کر کھا لیں لیکن خدارا خود کو ان سے بچا لیں، اتنا آپ کے پاس پیسہ نہیں ہوگا جتنا بیماری کے بعد خرچ ہو جائے گا اللہ ہم سب کو صاف ستھرا، پاکیزہ کھانے، پہننے اور اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.