ایک وقت وہ بھی تھا جب کچھ لوگوں کے ہاں ننگے سر رہنا معیوب سمجھا جاتا تھا، سراور در کے درمیان تعلق کو سمجھنے والے نبھانے والے کو سردار سمجھا جاتا تھا اور سر اور پگ لازم و ملزوم تھے۔ ویسے تو پگ چند گز کا ٹکڑا ہوتا تھا لیکن اس کے ساتھ اہم تصورات وابستہ تھے۔ پگ ذمہ داریوں کی علامت سمجھی جاتی تھی اور ان ذمہ داریوں کو کما حقہ نبھانا غیرت کی دلیل تھی۔ پگ پہننا مان پورے کرنے کا بھی عہد ہوتا تھا۔ پگ کے شملے کو اونچا رکھنا ہر باپ کے دلیر بیٹے کے لئے ضروری تھا اور باپ کی پگ کے وارث کو باپ کی پگ کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے قول قرار کی بھی قربانی دینا پڑتی تھی۔ پگ باندھ کر جب کوئی پرے پنچایت میں بیٹھتا تھا پھر تو وہ بہت ہی جوش میں آجاتا تھا اور ہوش کے کچھ یوں ناخن لیتا تھا کہ اپنے سگے بیٹے اور سگے بھائی تک کو مجرم قرار دے کر پگ باندھنے کے تقاضے پورے کر دیتا تھا۔ پگ کو داغ لگنا ایک محاورہ ہے اور محاوروں کی تخلیق کے پیچھے ایک پوری تاریخ ہوتی ہے۔ یہ تاریخ درباری تاریخ نویس نہیں لکھتے ہیں بلکہ یہ لوگوں کے سینے پر وقت خود مورخ بن کر نیک نیتی اور آیمانداری سے رقم کرتا ہے اور یہ تصور سینہ بسینہ چلتا رہتا ہے اور کوئی مائی کا لال اس کو چیلنج نہیں کر سکتا ہے۔ تاہم جو ان نظریات اور بیانیہ جات سے انحراف کرتے ہیں ان کو پیو دا پتر نہیں کہا جاتا ہے۔ اس طعنے سے بچنے کے لئے عصر حاضر میں ہم سب کلچر ڈے پر پگ پہن کر اپنے کلچر سے وابستگی کا اظہار کرتے ہیں۔ اب میڈیا کا دور ہے۔ مختلف پوز بنا کر فوٹو بنواتے ہیں بلکہ سیلفیاں بنواتے ہیں اور پھر سوشل میڈیا کے ذریعے سے دنیا بھر میں مقبول ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ پگ کے ساتھ اگر ڈھول پر جھومر ہوجائے اور اوپر سے اگر جھومری معاشرتی طور پر معتبر سمجھا جاتا ہو پھر تو کمال ہے کمال ہے۔ ہزاروں بلکہ لاکھوں میں لائک آنے کا قوی امکان ہے اور اگر جھومر وائرل ہو جائے پھر بندے کی شہرت وائرس کی طرح پھیل جاتی ہے۔ شکر ہے وائرس اور وائرل میں رتی کا فرق ہے نہیں تو سمال لاک ڈاؤن کی بحث بھی زور پکڑ جاتی۔ پنجاب کا جوان ہو اور پھر وہ جھومر نہ ڈالے۔ ہمارے گبھرو جوانوں کے لئے بہت بڑا چیلنج اور کہتے ہیں پنجاب کا جوان زندگی کو چیلنج سمجھ کر گزارتا ہے۔ اس کے ہاں رشتوں کا بھی بڑا تقدس ہوتا ہے۔ باپ کی پگ کا وارث ہوتا ہے۔ ماں کا مان بڑھانے کے لئے بیوی کے نیچے لگنے سے پوری طرح گریز کرتا ہے بلکہ گریز پا ساری قوتوں کا پوری مستعدی اور چابک دستی سے مقابلہ کرتا ہے۔ بھائی بھائی کا بازو بنتا ہے اور استثنائی صورت حال میں آدھی گھر والی آکر اس بازو کو توڑنے میں کامیاب ہوتی ہے بصورت دیگر رشتوں کی پاسداری کے لئے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ بہن تو ککلی ڈالتے ہوئے بھی بھائی کی پگ کو نہیں بھولتی ہے ہاں البتہ بھائی آپس میں جائیداد کی ونڈیاں ڈالتے ہوئے اکثروبیشتر اپنی بہنوں کو بھول جاتے ہیں۔ دلہن اس عہد کے ساتھ پیا گھر سدھار جاتی ہے کہ اب وہاں سے اس کا جنازہ اٹھے گا۔ گھر کی سب عورتوں کے محافظ پیدا ہونے پر لڈو بانٹے جاتے ہیں اور سب مل کر منہ میٹھا کرتے ہیں بلکہ ڈھول ڈھمکے اور گولے چلانے کا بھی چانس ہوتا ہے اور ڈھول ہو اور پھر جھومر نہ ہو یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ ڈھولا، ماہیا،ٹپہ،ککلی، گدھا، دہڑا لوک گیت تے اوہ وی ماں بولی وچ۔ پاوں تو سرکیں گے اور دل کے تار تو کھڑکیں گے۔ کیف و سرور اور پھر جذب و مستی۔ حال ہی میں ہم نے ایک لوک فنکار گانے کے لئے منگوایا اس نے جیسے ہی شاہ حسین کو اٹھ کر دیکھنے کے لئے دعوت دی تو مجمعے میں شور مچ گیا کہ ایک خاتون بے ہوش ہو گئی ہے۔ فوری طور پر ریسکیو 1122 کی ٹیم کو بلایا گیا اچھا ہوا یہ وجد کی کیفیت تھی اور وجد کی کیفیت لمحاتی ہوتی ہے۔ مذکورہ ٹیم کو بھی دھکا پڑا۔ کوئی بات نہیں ہے یہاں کچھ حاصل کرنے کے لئے دھکے تو کھانا ہی پڑتے ہیں بلکہ جب کھانے کو کچھ نہ ملنے کا امکان ہو پھر تو بہت ہی دھکے کھانا پڑتے ہیں۔ یتیم کو دھکے دینے والا معتوب ٹھہرایا گیا ہے۔ امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے۔ مجموعی طور پر ہمارا دیس پنجاب۔ یہاں پیار کی بین بجائی جاتی ہے۔ یہاں جگا طاقتور لوگوں سے پیسے چھین کر غریبوں میں تقسیم کردیتا ہے۔ یہاں صوفی دسترخوان بچھا کر بیٹھتا ہے اور پھر اپنے جیسے گوشت پوست کے انسانوں کو وہاں بیٹھ کر تسلی سے کھانے پر مجبور کرتا ہے اور پھر اوپر سے قوالی۔ کلام بابا فرید، وارث شاہ، بلھے شاہ ، سلطان باہو، علی حیدر ملتانی، پیر مہر علیشاہ اور خواجہ غلام فرید کا۔ سبحان اللہ سبحان اللہ بلکہ پھر کہو سبحان اللہ سبحان اللہ۔ بات نور جہاں سے نصیبو لال تک پہنچتی ہے اور پھر دھمال اور پھر دھمال سے وصال تک۔ کوئی ورلیاں موتی لے تریاں۔ یقینا موتی کی تلاش میں غوطہ زن ہونا پڑتا ہے اور یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ گھر کے سکون اور امن کے لئے زن مرید ہونے کی ضرورت ہے۔ پیر مرید اور زن مرید میں آنکھیں بند کر کے پیچھے چلنا شرط اول ہے نہیں تو بہت جلدی کچی کے ٹوٹنے کا امکان ہوتا ہے۔ تعلق کو بنانا پالنا پوسنا اور جوان کرنا بھی ہماری دھرتی پر بسنے والوں کی ریت ہے اور یہ ریت آج تک اصلی حالت میں نبھائی جا رہی ہے اور جب تک ہم کلچر ڈے پر پگ پہنتے رہیں گے یہ سلسلہ جاری وساری رہے گا۔
اس کے سال محترمہ مریم نواز شریف وزیراعلٰی پنجاب نے کلچر ڈے کو گذشتہ سالوں سے کافی سارا ہٹ کے منا کر پنجاب کی دھی رانی ہونے کا ثبوت