یادیں، حوصلہ اور الطاف حسن قریشی

85

برکلے نے کہا تھا کہ میں بغیر سوچے سمجھے ارسطو کو سکندر کہہ سکتا ہوں لیکن ہزار بار سوچنے کی باوجود سکندر کو ارسطو نہیں کہہ سکتا بالکل اسی طرح میں بھی بغیر سوچے سمجھے جناب الطاف حسن قریشی کو وزیراعظم پاکستان کہہ سکتا ہوں لیکن ہزار بار سوچنے کے باوجود وزیراعظم کو الطاف حسن قریشی نہیں کہہ سکتا تحریک ازادی میں علی برادران اور تحریک پاکستان میں اور استحکام پاکستان میں قریشی برادران کا تاریخی کردار تاریخ کے رخ تاباں پر کہکشاں کی مسجع اور مقفع عبارتوں کی طرح صبح قیامت تک دمکتا رہے گا ۔ دنیا کی بڑی سے بڑی قوت قریشی برادران کا نام نامی اسم گرامی انسانی حافظوں سے محو نہیں کر سکتی ۔ اس وقت پوری دنیا میں اردو زبان کے بزرگ ترین صحافی جناب الطاف حسن قریشی کے اعزاز میں دانشور برادری کا جم خانہ کلب میں عشائیہ کا اہتمام امریکہ سے ائے ہوئے اپ کے مداح انجینیئر ظفر علی نے کیا ۔ جن کے انکسار میں ہم سب نے افتخار تلاش کیا اور ادیبوں سے کہیں زیادہ ادب کی خدمت کرنے والے ادب پرور شخصیت پایا ایسے لوگوں کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے مجیب الرحمان شامی نے الطاف حسن قریشی کی سات دہائیوں پر پھیلی ہوئی صحافتی خدمات کو زبردست الفاظ میں سراہتے ہوئے کہا کہ الطاف حسن قریشی صحافت کا ایک ایسا مکتب ہیں کہ جس سے فارغ التحصیل ہونے والے درجنوں صحافی اسمان صحافت کے تابندہ ستارے بن چکے ہیں ۔اپ نے کہا الطاف حسن قریشی کی ذات میرے لیے سید علی ہجویری کے استانے کی طرح ہے کہ جہاں ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے خیرات بٹتی ہے اہل دل مست رہتے ہیں اور مجھے خواجہ اج میر کے ان الفاظ کے سوا کچھ اور سجائی نہیں دیتا سنائی نہیں دیتا اور دکھائی نہیں دیتا کہ
گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل کاملاں را راہنما

اس موقع پر ارشاد احمد عارف نے کہا کہ انہوں نے الطاف حسن قریشی سے کسب فیض حاصل کیا ہے ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے کہا کہ قریشی کے دلکش اسلوب نگارش میں ادبیت یوں رچی بسی ہوتی ہے جیسے پھول میں خوشبو ۔ جاوید نواز ہمارے درمیان خوئے دل نوازی کی اداؤں سے سرفراز بہترین گفتگو طراز ہیں اپ نے الطاف قریشی کو اس گئے گزرے دور میں اچھے وقتوں کی حسین و جمیل نشانی قرار دیا اور کہا کہ اج کے اس پر اشوب اور بناوٹی دور میں الطاف حسن قریشی جیسے صاحب قلم کو ڈھونڈ نکالنا خاصہ مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ سیاست دانوں کی طرح بلندو بانگ دعوے کرتے ہیں نہ بیشتر ٹی وی اینکرز کی طرح مصنوعی محاذ جنگ قائم کر کے مسائل کو سیاق و سباق سے الگ کر کے اس طرح اچھالتے ہیں کہ اچھے سمجھدار لوگ بھی وقتی طور پر اسے حقیقت مان لیتے ہیں اس کے برعکس الطاف قریشی کے قبیل کے صاحبان بصیرت قوموں کے عروج و زوال پر سوچتے رہتے ہیں دکھی انسانیت کی چیخ و پکار سنتے اور مظلوم کے جذبات کو محسوس کرتے ہیں ان کی انگلیاں کسی ہارمونیم کی بجائے قوم کی نبض پر ہوتی ہیں انہی میں الطاف حسن قریشی کا شمار ہوتا ہے اس موقع پر ڈاکٹر صغری صدف ۔ سلمہ اعوان نے کہا الطاف حسن قریشی ملک کے ایک بلند پایہ صحافی ہی نہیں اپنے ہاتھوں میں قلم تھامنے والے نو خیز لکھاریوں کے لیے ایک دبستان تربیت گاہ بھی ہیں ۔ سرور سکھیرا نے کہا کہ میرے سامنے ہفت روزے ۔ ماہنامے اور روز نامے عید کے چاند کی طرح طلوع ہو کر دیوالی کے دیپ کی طرح بجھ گئے میرا اپنا دھنک محض ایک بلبلہ ثابت ہوا تھا جو پٹاخ سے ابھرا اور چٹاخ سے چھوٹے چھوٹے چھیتڑوں کی صورت بکھر کے ختم ہو گیا جبکہ اردو ڈائجسٹ ایک رواں دواں ندی کی مانند ہے کسی مہم یا ادارے کی کامیابی کے پیچھے اس کے روح رواں کی ذات کا بہت دخل ہوتا ہے میں ایک جذباتی شخص ہوں جو وہی کرتا ہے جو دل نے چاہا مگر دل تو اندھا ہوتا ہے قریشی صاحب باریک بین دور اندیش اور زمانہ شناس شخص ہیں انہیں مکمل ادراک ہے کہ بادبان کو ہوا کے رخ کے الٹ نہیں ہونا چاہیے تاکہ کسی جھکڑ یا طغیانی سے کشتی ڈوبنے سے بچائے جا سکے وہ حالات کے دائیں بائیں اوپر نیچے ہونے سے نپٹنا جانتے ہیں ممتاز خاتون کالم نگار محترمہ سعدیہ قریشی نے احمد ندیم قاسمی کے ایک شعر میں الطاف حسن قریشی کو خراج تحسین پیش کر دیا کہ

دشمن بھی جو چاہے تو میری چھاؤں میں بیٹھے

میں ایک گھنا پیڑ سر رہ گزر ہوں

رخسانہ رکشی نے بھی الطاف حسن قریشی کی خدمات کے اعتراف میں گراں قدر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انہیں خراج تحسین پیش کیا

انجئنر ظفر علی نے میزبان کی حیثیت سے اپنے تمام شرکائے عشائیہ کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتے ہوئے اس سلسلے کو ائندہ بھی جاری رکھنے کا عندیہ دیا اور اپ نے اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلی کی خدمات کے اعتراف میں ان کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ۔ جناب اسلم مغل جناب حسین شیرازی نے کہا قریشی صاحب کی خدمات ہماری بہت سی یونیورسٹیوں سے بھی زیادہ موثر اور معتبر ہیں قریشی صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو ان کی رجائیت پسندی ہے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں جب بہت سے لوگ یہ سوچ کر اپنی انکھیں بند کر دیتے ہیں کہ اب نظر تو کچھ انا نہیں خواہ مخواہ ان کو تکلیف دیں اس عالم میں بھی قریشی صاحب کو امید کا سورج نہ صرف چمکتا دکھائی دیتا ہے بلکہ اپنے زور قلم اور فراست سے اس روشنی کو اس طرح عام کر دیتے ہیں کہ ان کے قارئین پھر سے نئے عزم و ہمت کے ساتھ سچ کے سفر پر چل پڑتے ہیں ۔ جناب سعید جاوید نے کہا کہ الطاف حسن قریشی نے سقوط ڈھاکہ سے پردہ اٹھتا ہے کہ عنوان سے ان شخصیات اور محرکات کی بڑی حد تک نشاندہی کی جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ذمہ دار تھے بھٹو صاحب نے اس جرم پر قریشی برادران کو حوالہ زنداں کر دیا ان دنوں ان کی تحریریں غیر معمولی ذوق و شوق سے پڑھی جا رہی تھیں کہ وہ اپنی انگلیاں خون دل میں ڈبو کر لکھتے تھے ۔ جناب میاں سیف الرحمن۔ جناب پروفیسر شبیر احمد۔ ممتاز قانون دان احسان وائیں نے کہا کہ الطاف حسن قریشی کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ تھا کہ ہم اردو زبان اردو ڈائجسٹ سے سیکھتے تھے پنجاب یونیورسٹی شعبہ لا کے ڈین پروفیسر امان ء اللہ خان نے کہا کہ میں الطاف حسن قریشی کے چمنستان علم کا خوشہ چین ہوں اور مجھے اس پر فخر ہے اور یہ میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے اور دوسرے نامور صحافیوں نے بھی قریشی صاحب کی صحافت کے لیے گراں قدر خدمات کو ھدیہ ء تبرک پیش کیا الطاف حسن قریشی نے اپنے میزبان انجینیئر ظفر علی اور دیگر شرکاء کے کلمات تحسین پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ یہ محض اللہ کا فضل اور ان کے والدین کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ ان کی تحریریں قارئین کے دلوں پر اثر کرتی ہیں ۔ الطاف حسن قریشی ایک مکتب ۔ ایک سکول ۔ ایک فکر ۔ ایک نظریہ اور ایک یونیورسٹی کا نام ہے اپ کے شاگردوں میں مزدور سے لے کر وزیر تھا اور ایک تاجر سے لے کر پاکستان کے وزیراعظم اور صدر تک شاگردوں میں شمار ہوتے ہیں ۔ علی برادران کی طرح قریشی برادران نے بھی قید و بند کی صعوبتیں اس وطن عزیز کی خاطر برداشت کی ہیں ۔ الطاف حسن قریشی ادیب صحافی کے حوالے سے تو معروف ہیں لیکن وہ ایک بہترین شاعر بھی ہیں مجھے یاد پڑتا ہے کہ پاک ترک دوستی کے حوالے سے افطار پارٹی میں اپ موجود تھے اور مجھے یہ اعزاز اصل تھا کہ میں نے ترکی میں چند روز کے حوالے سے اپ کی خوبصورت نظم پڑھ کر سنائی تھی جو میں چند اشعار نذر قارئین کرنا چاہتا ہوں

ترکی میں جان و دل کا عجب رابطہ ہوا
دونوں طرف چراغ وفا جاگتا ہوا دیکھا ہے اس دیار محبت میں دوستوں
اپنے وطن کا نام دلوں پر کھدا ہوا
تاریخ کا شعور اخوت میں ڈھل گیا

صدیوں کا اعتبار فضا میں رچا ہوا

سچی محبتوں کے مناظر تھے بیکراں

جذبہ نگاہ شوق سے آگے بڑھا ہوا
اے ہم نشین نہ پوچھ تب و تاب قونیہ
عالم تھا ایک شعلہ ء رقصاں بنا ہوا
رعنائی ء سرود کا وہ ابشار نور

چہرہ ریاض لے سے گلستاں بنا ہوا

ہر آنکھ میں خلوص و محبت کی چاندنی
ہر سمت دوستی کا دریچہ کھلا ہوا

الطاف ترک قوم کو میرا سلام شوق
ہر ایک جبیں پہ حرف شجاعت لکھا ہوا

الطاف حسن قریشی نے اپنے میزبان انجینیئر ظفر علی اور دیگر شرکاء کے کلمات تحسین پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا یہ محض اللہ کا فضل اور ان کے والدین کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ ان کی تحریریں قارئین کے دلوں پر اثر کرتی ہیں ۔ الطاف حسن قریشی نے کہا کہ مجھے اپنے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے اس امر کا بار بار احساس ہوتا ہے کہ ہم دونوں بھائیوں اور پورے خاندان کو جو اپنے ہم وطنوں کی خدمت کرنے کا شرف حاصل ہوا وہ تمام تر اللہ تعالی کے فضل و کرم اور پاکستان کی بدولت ملا ہے ہندوستان کے ایک پسماندہ علاقے کے باسی کو پاکستان میں ا کر تعلیم حاصل کرنے اور صحافت کے کوچے میں قدم رکھنے کا موقع میسر ایا ماہنامہ اردو ڈائجسٹ کو اللہ تعالی نے غیر معمولی مقبولیت عطا کی جس کی بنا پر مجھے اپنے وطن کی عظیم شخصیتوں اور دنیا کے عظیم رہنماؤں سے گھنٹوں گفتگو کرنے کا اعزاز نصیب ہوا عالم اسلام کے بہت بڑے مدبر شاہ فیصل نے انٹرویو کے لیے ڈیڑھ گھنٹہ عطا کیا جبکہ ترک وزیراعظم جناب سلیمان ڈیمرل ڈھائی گھنٹے محو گفتگو رہے اور ان تصورات پر خط تنسیخ پھیرتے رہے جو صدر ایوب خان نے جمہوریت اور صحافت کو پابہ جولاں کرنے کے لیے تراشے تھے انڈونیشیا کے صدر سہارتو اور ملائشیا کے وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد سے ملاقاتیں رہیں اسلام کے بہت بڑے مفکر سید ابولاعلی مودودی کا ایک ہمہ پہلو انٹرویو لینے کا شرف بھی مجھے حاصل ہوا جو تین نشستوں پر مشتمل تھا اللہ تعالی کی ان عنایات بے پایاں پر اس کا شب و روز شکر بجا لاتا ہوں

اخر میں ملک کے نامور خطاط سماجی سینسدان عظیم انسان جناب سید قطب نے اپنی خطاطی پر خوبصورت فریم میں اراستہ ارمغان خطاطی پیش کیا اس موقع پر اپ کے امریکہ سے ائے ہوئے دوست جناب غلام جیلانی بھی موجود تھے

منشا قاضی
حسب منشا

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.