ہماری اِس دنیاوی زندگی کے لَمحات بے حد مُحتصر ہیں، اِنھیں فضول تخیلات کی وادیوں میں کُھو کر شیخ چلی کے طرح خواب بُننے میں ضائع مت کریں۔ جتنا ہو سکے ان قیمتی لمحات کو عالم برزخ کی تیاری میں صرف کریں۔ خود کو کسبِ حلال سے مزین کریں کہ ہماری اکثریت کے پیٹ میں موجود رزق آج اکثر حلال کا نہیں ہوتا۔ جب کمایا ہی حلال کا نہیں تو دعائیں کہاں سے قبول ہوں؛ نسلیں کیسے سنوریں؟ معاشرے میں کیسے تبدیلی آئے گی؟
جب ایک سبزی فروش سے لے کر بڑے تاجر تک اور پرائمری استاد سے لے کر مکینک تک سب اپنے رویوں میں، آٹے میں نمک برابر تبدیلی لانے کو تیار نہ ہوں؛ سب کو بس ہر حال میں مال و دولت چاہیے ہو، بھلے کہیں سے بھی آئے۔ کھانے میں زہر ملانا پڑے، مردہ جانوروں، مرغیوں کا گوشت بیچنا پڑے، آٹے، دال، چینی، پتی، چاول، مصالحہ جات اور چنے وغیرہ میں پتھر ملا کر یا رنگ لگا کر بیچنا پڑے؛ ہمیں تو ہر حال میں پیسہ چاہیے۔ کسی کی نیند حرام ہو، کسی کا چین چھن جائے، کسی کے مال پر ناحق قبضہ کرنا پڑے، ہمیں تو بھائی ہر حال میں پیسہ چاہیے؛ چاہے اس مقصد کے حصول کے لیے کسی کو زندہ لاش بنانا پڑے یا اسے زندہ درگور کرنا پڑے۔
ہماری حالت آج اِیسی ہو چکی ہے، اکثر گھروں میں عمریں بیت جانے کے باوجود خواتین کی شادیاں اس لیے نہیں ہو پائیں کہ ان کے ماں باپ کے پاس جہیز کا سامان نہیں، اگر سامان ہو بھی جائے تو رنگت گوری نہیں، اگر وہ بھی ہو جائے تو اس کے پاس تعلیم نہیں، اگر وہ بھی ہو جائے تو اسے کھانا بنانے کا ڈھنگ نہیں آتا، اگر وہ بھی سیکھ لے تو اس کے پاس نوکری نہیں۔
اسی طرح اکثر ہمارے مرد کم پڑھے لکھے اور بے ہنر ہوتے ہیں۔ الٹے سیدھے لوگوں میں بیٹھ کر مال کمانے کا ڈھنگ سیکھ جاتے اور حلال و حرام کی تمیز کیے بغیر کماتے چلے جاتے ہیں، انھیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ مال حلال کا کمایا یا حرام کا۔ اس لیے جب ان کی اولاد ہوتی ہے تو اکثریت کی زبانوں پر جو پھول کِھلے ہیں اس کی خوشبوئیں آپ ضرور محسوس کرتے ہوں، شاید اس میں بھی عورت کا یہ قصور قرار دیا جاتا ہے کہ وہ بچوں کو لاڈ دیتی ہے؛ حالاں کہ حلال روزی کا معاملہ بنیادی مسئلہ ہوتا ہے۔
آپ نے اکثر محسوس کیا ہوگا جب بھی ہمارے گھروں میں تھوڑی سی سچی بات کی جائے؛ سارا خاندان ہی بگڑ جاتا ہے۔ زندگی کے ٹھوس ترین تجربات اکھٹے کرنے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرنے پر مجبور ہوا ہوں کہ ہماری اکثریت رزق حلال کے معاملے میں کوتاہی برتی ہے۔ جنھوں نے رشوت دے کر نوکری حاصل کی ہو، سود کے پیسوں سے اور دوسروں کے مال پر قبضے جما کر شہرت حاصل کی ہو، ان کی نسلوں میں بھی یہی دھندا مسلسل گردش کرتا رہتا ہے؛ کیوں کہ جسے حرام کی لت پڑ چکی ہو اور جو پلا بڑھا ہی حرام کے مال سے ہو، اُس سے آپ کس خیر کی توقع کر سکتے؟ حلال مال سے تو آج بھی بہ مشکل بندہ دو وقت کی روٹی ہی کھا سکتا ہے۔ باقی ڈیلنگ والے معاملات سے سب واقف ہیں۔
آپ غور و فکر کریں، جس نے بھی راتوں رات اکھٹے کر کے گاڑیاں بنگلے بنائے اس کے پیچھے لازمی کسی کی حق تلفی، رشوت یا سود کا معاملہ کہیں نہ کہیں ضرور شامل ہوگا، بلاشبہ ڈنڈی مارنا ہمارا قومی ورثہ بن چکا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کچھ لوگ اس بدعنوانی کے نظام کی وجہ سے پیسہ پھینک کر امیر سے امیر تر ہو چکے ہیں اور اکثریت کسب حلال کے باوجود فاقوں پر مجبور ہیں۔ آج ہم اپنے رزق سے حرام، سود، حق تلفی، رشوت، لُوٹ مار اور جھوٹ نکال دیں، کل ہمارے پاس کھانے کے لیے سُوکھے چوہارے ہی بچیں گے، پس ثابت ہوا ہمارے سارے ڈرامے سرمایے سے شروع ہو کر سرمایے پر ختم ہوتے ہیں۔
ہمیں کسی سے ہمدری نہیں ہماری ساری کی ساری کوشش، سارے کا سارا غم اپنی ذات کے لیے ہے، اس لیے تو اقبال نے کہا تھا، یہ ہیں مسلمان جنھیں دیکھ کر شرمائیں یہود۔