سفرنامہ ننکانہ صاحب برائے بھیل انٹرنیشنل ادبی میلہ 2025.
تحریر: عاصم نواز طاہرخیلی (غازی/ہری پور)
گزشتہ دس سال سے ننکانہ صاحب میں زاہد اقبال بھیل صاحب ادبی میلے سجا رہے ہیں جن میں پاکستان بھر سے سیکڑوں ادبا و شعراء کو اعزازت سے نوازا جاتا ہے۔ میں نے بھی اس بار اپنی دو کتب ” نقطہء نظر اور باباجی سلم کھنڈی” بزم مصنیف ہزارہ کے جھنڈے تلے اس ادبی میلے میں بھیجی تھیں جو گولڈ میڈلز و اسناد کے لیے نامزد ہوئیں۔
13 اپریل 2025 بمقام ڈسٹرکٹ بار کونسل ننکانہ صاحب میڈلز وایوارڈز کی تقسیم ٹھہری۔ زاہد اقبال بھیل صاحب کی طرف سے تقریباََ ایک ماہ پہلے دعوت نامہ ملا۔ سفر بہت لمبا مگر میڈلز سے مزین تھا اس لیے ہمت نہ ہوتے ہوئے بھی میرے سمیت بزم مصنفین ہزارہ کے دیگر ارکان نے بھی صدر عظیم ناشاد اعوان کی رہنمائی میں ارادہ باندھ لیا۔ سب یہی چاہتے تھے کہ کوئی گاڑی بک کر کے پہنچا جائے تاکہ سفر کی کچھ تکلیف کم ہو۔ کچھ وجوہات کے باعث عین آخری وقت پر گاڑی کی بکنگ والا ارادہ منسوخ ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی پیر ودھائی اڈہ راولپنڈی سے بزریعہ بس جانا پڑا۔
المختصر سب اپنے اپنے علاقوں سے دو تا پانچ گھنٹوں کے سفر کر کے بمقام واہ ایک دوست کے پاس شام چھ بجے اکٹھے ہوئے۔ پھر یہاں سے فون کر کے سیٹیں بک کی گئیں۔ یہ جان کر تھکن مزید بڑھ گئی کہ گاڑی رات بارہ بجے سفر کیلیے نکلے گی۔ شام چھ سے رات بارہ بجے تک جو انتظار کرنا پڑا اس کی کوفت بیان سے باہر ہے۔ بحرحال رات بارہ بجے سے صبح پانچ بجے کا بےآرام سفر جس میں گزرے پورے دن کا انتظار بھی شامل تھا کا اختتام نانکانہ صاحب پر ہوا۔ آگے زاہد اقبال بھیل صاحب نے سب کا استقبال کرتے ہوئے اپنے گھر پہنچایا اور صبح بہترین ناشتہ دیا۔ ادبی میلہ کے آغاز کیلیے دن بارہ بجے تک کا انتظار کرنا پڑا کیونکہ پورے ہاکستان سے مہمانان کے پہنچنے کا انتظار تھا۔ خدا خدا کر کے پروگرام کا آغاز ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ سالانہ بھیل انٹرنیشنل ادبی میلہ بڑے ذوق و شوق سے سجایا گیا۔ ملک بھر سے سیکڑوں مصنفین، مصنفات، مؤلفین، مؤلفات، مؤرخین، شعرا، شاعرات اور ادباء نے بھرپور شرکت کی۔
اس ادبی تقریب کے میزبان بھیل انٹرنیشنل ادبی سنگت کے چیئرمین زاہد اقبال بھیل جبکہ سرپرست پروفیسر سید شبیر حسین زاہد اور علامہ صادق علی زاہد تھے۔ اس پروگرام کا انتظام محمد زین زاہد اور ان کی ٹیم نے سنبھالا اور نظامت زاہد اقبال بھیل، رائے عابد حسین کھرل اور عقیل شافی نے انجام دی۔
پروفیسر ڈاکٹر خورشید احمد قادری، پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد سلہری، ڈاکٹر ہارون الرشید تبسّم، ڈاکٹر محمد مشرف حسین انجم اور چند دیگر شخصیات نے پروگرام کی صدارت سنبھالی جبکہ مہمانانِ خصوصی میں بزمِ مصنفین ہزارہ کے چیئرمین محمد ریاض ملک، صدر ملک عظیم ناشاد اعوان، مجھ یعنی جنرل سیکرٹری ہری پور عاصم نواز طاہرخیلی کے علاوہ عبدالوحید بسمل، ابو عبداللہ عارف علوی، ڈاکٹر حفیظ احمد, سعدیہ ہما شیخ اور دیگر شامل تھے۔ بزمِ مصنفین ہزارہ کے ارکان میں سے محمد ریاض ملک، عظیم ناشاد اعوان، مجھے، ڈاکٹر پروین سیف، ڈاکٹر راحیلہ خورشید، پروفیسر سعدیہ حلیمہ منگلوری، پروفیسر ملک ناصر داؤد، عبدالوحید بسمل، عبدالرحیم بھٹی، ابو عبداللہ عارف علوی، سید ظفر علی شاہ، مولانا طاہر تنولی، سمندر خان سمندر، مفتی عنایت الرحمٰن ہزاروی، ملک جمشید، حافظ سجاد قاسمی، رشید علوی، محمد خالد اور قاضی بخت یار کو گولڈ میڈلز اور اسناد سے نوازا گیا۔ چند ارکان کو بیسٹ رائیٹرز اور دیگر خصوصی ایوارڈز بھی دیے گئے۔ چونکہ زاہد اقبال بھیل صاحب کو بار بار درخواست کیے جانے کے باوجود ان کی طرف سے تاہنوز دیگر ایوارڈ یافتگان کی تفصیل مہیا نہیں کی گئی اس لیے اس تقریب کا زکر باسی ہونے کی احتیاط سے محدود معلومات پر ہی انحصار کرتا ہوں۔ المختصر انتظامیہ کی طرف سے مہمانوں کے لیے طعام و قیام کے وسیع تر انتظامات کیے گئے تھے۔ جس پر میں عاصم نواز طاہرخیلی اور بزم مصنفین ہزارہ کے دیگر تمام ارکان زاہد اقبال بھیل کے انتظامی امور اور ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے داد تحسین پیش کرتے ہیں۔
پروگرام ابھی جاری ہی تھا کہ شام تقریباََ چھ بجے ہماری بزم نے زاہد اقبال بھیل صاحب سے رخصت لی کیونکہ ہمارا پروگرام سفر کی مشکلات کم کرنے کیلیے لاہور سے ڈائریکٹ مانسہرہ کی بس میں بیٹھنا تھا جو ہمیں اپنے اپنے مقامات پر اتارتی۔ نانکانہ صاحب سے لاہور اور پھر لاہور سے رات بارہ بجے تک کا وقت گزارنا بھی اک ازیت تھا۔ بحرحال موقع کو غنیمت جانتے ہوئے داتا دربار، مینار پاکستان، اردو بازار،شاہی قلعہ وغیرہ گھومے۔ مولانا طاہر تنولی کے اک دوست نے ہمارے طعام کا خوبصورت بندوبست کیا اور پھر کسی نا کسی طرح وقت گزار کر ہم رات بارہ بجے بس پر جانب منزل رواں ہوئے۔ سخت تھکن اور دو جگ راتے کاٹنے کے بعد صبح سوا چار بجے میں برہان کے مقام پر اترا۔ ابھی رات کی سیاہی اور سنسانی باقی تھی۔ میں روڈ پر تھکن سے چور پتہ نہیں کتنی دیر چلتا رہا کہ اک ہوٹل پر نظر پڑی۔ وہاں چائے پی اور تین گھنٹے پڑا رہا۔ پھر ساڑھے سات بجے روڈ ناپنا شروع کیا لیکن نہ کوئی رکشہ آرہا تھا اور نہ غازی کی گاڑی۔ کافی دیر بعد پہلے اک رکشہ نصیب ہوا جس نے حسن ابدال تک اور پھر وہاں سے پنڈی تا ٹوپی گاڑی ملی جس میں مجھے ٹھونس دیا گیا۔ تھکن سے چور بدن کے ساتھ نو بجے کے قریب گھر پہنچا۔ آج تیسرا دن ہے مگر تھکن اترنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ اگر اس سفر سے گولڈ میڈلز اور اسناد نکال دی جائیں تو یہ ایک انتہائی بھیانک یاد بنتی ہے جو صرف اک دوست کی نادانی کے سبب ہمارے حصے میں آئی۔ لازم ہے کہ ایسا سفر زاتی گاڑی یا بکنگ کے ساتھ کیا جائے تاکہ گھنٹوں گاڑی کے انتظار اور گاڑیاں بدلنے کی کوفت سے چھٹکارا ملے۔
آخر میں یہی کہوں گا کہ اگر عظیم ناشاد اعوان، مولانا طاہر تنولی، ظفر علی شاہ اور عبد الرحیم بھٹی جیسے ساتھی میسر نہ ہوتے تو یہ سفر کبھی یادگار نہ بنتا۔ یہ وہ