شام کی چائے

83

از:قلم۔۔۔نورین خان پشاور

14 اگست 1948 آج جب مجھے ایسا لگا،جیسے برسوں بعد اپنے گاوں جانے لگا ہوں، تو مجھے بالکل ویسے ہی خوشی محسوس ہو رہی تھی۔
جب 14 اگست 1947ء 27،رمضان المبارک کو پاکستان کے قیام کے وقت تھی۔میرا انگ، انگ خوش تھا۔
جب میں نے آسمان کی جانب دیکھا،تو دنیا سے بےخبر پرندے فضا میں آزادی سے اڑان بھر رہے تھے
اور اپنے آپ میں مست تھے۔یہ موسم کی دنیا بھی عجیب ہی دنیا ہے
جو اردگرد کے خوشگوار ماحول اور آس پاس کے حالات،لطف اندوز مناظر،دلفریب رشتے،بتائے ہوئے انمول لمحات،اور کئی بچھڑے دوست اور قیمتی لوگ آنکھوں کے سامنے خودبخود سامنے آ جاتے ہیں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے۔اس دن یہی وقت تھا، نسیم سحر کے وقت جب پھولوں پر بارش کے قطرے کسی شفاف چمک دار موتیوں کیطرح، جگ مگ،جگ مگ کرکے چمک رہے تھے۔درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ عروج پر تھی، اور پرندے خوشی سے چہک رہے تھے۔
ایسے لگ رہا تھا،کہ جیسے سمندر کے وسیع سینے پر، ابر کے کالے سیاہ ٹکڑوں نے ڈھیرہ جما لیا ہوں، اور اپنی ایک جگہ بنا لی ہو۔اور بادل چاروں طرف سے گھر کر آ گئے ہو
اور ایسے لگ رہا تھا،جیسے اس کے کالے زلفوں نے آسمان کو گھیر لیا ہو۔
سامنے نظر آنے والے ہرے بھرے سرسبز باغ میں پل پل ایک تازہ اور سرسبز ڈالی پر دو خوبصورت گلاب کے پھول کھلکھلا رہے ہو، اور خوشبو بکھیر رہے ہو۔
ایسے لگ رہا ہے،جیسے گرمیوں کے موسم میں دوپہر کے آنگن میں تپتی اور دہکتی لو اس کی گرم سانسوں جیسی ہو۔
آج بھی اس کی بےترتیب سانسیں مجھے شدد سے یاد آئی۔
جیسے چاند کی شفاف چاندنی میں، اجلی سفید روشنی،چندرما کی اجالتا،چاند کی شفافی،پھولوں کی شادابی،رنگوں کی رنگینی،پانیوں کی نرملتا اس کے شفاف جسم جیسی ہو۔
پہلی بار جب میں نے اسے دیکھا، تو وہ نازنین،ماجبین،دلنشین ڈری اور سہمی ہوئی ایک بڑے پرانے بوڑھے پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔
میں بہت حیران ہوا کہ ایک نہتی لڑکی اکیلی، وہ بھی ہندوستان بارڈر کے قریب، کیا کر رہی ہے۔
میں اس دن گرم چائے کی کیتلی ہاتھ میں لئے مہاجر کیمپ جارہا تھا۔
جہاں ہزاروں لوٹے پوٹے دربدر مہاجرین میرے منتظر تھے۔
اچانک چاروں طرف سے کالے بادل نمودار ہوئے،اور زور سے ٹھنڈی ہوائیں بےتاب ہو کے چلنے لگی۔
ہواؤں نے بھرپور انگڑائی لے کر، خطرناک طوفان کی شکل اختیار کر لی۔لگتا ہے آج بارش خوب برسے گی۔
آندھی نے زور پکڑ لی۔
آندھی نے اودھم مچا دیا،اور گردونواح میں مٹی اور ریت کا طوفان بلند ہو گیا،کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
اس مدھم روشنی میں بھی،اس نازنین کے خط و خاں بالکل صاف اور واضح دیکھائی دے رہے تھے۔
اس نے سادہ کاٹن کا کرتہ پہن رکھا تھا،اور سر پر سلیقے سے ڈوپٹا اوڑھا ہوا تھا۔اس کی خوبصورت جھیل سے زیادہ گہری، بڑی بڑی دلنشین آنکھیں،
خوش وضع پپوٹوں تلے دبی ہوئی تھی، اور بہت ہی پرکشش معلوم ہو رہی تھی۔
مگر مجھے ایسا لگا جیسے وہ پریشان اور بےتاب ہو۔
خیر اس آندھی اور طوفان میں اب ہمدردی اور دلچسپی کا رنگ ایک طرح سے مل گیا تھا۔ایسے لگ رہا تھا،جیسے دل کے تاروں پر، کوئی انگلی سے پریم اور محبت کی مدھوش کن، دھن بجا رہا ہو۔
میں اس کے قریب جانے لگا۔
اور اس نے تھرتھرائی ہوئی نقرئی اور شیریں مزاج آواز میں پہلا لفظ بولا۔۔
مجھے بھی شام کی چائے بہت پسند پے۔
وہ چپ تھی مگر چپ رہ کے بھی،بہت کچھ کہہ گئی۔
اس کے لہجے میں منت تھی۔
قدرے سکوت اور وقفے کے بعد بہت دھیمے اور باریک اور شیریں آواز میں پھر سے بولی۔
میرا نام نیلوفر ہے۔میں ہندوستان کے بارڈر کے قریب رہتی ہوں۔
میرے گھر والوں اور گاوں والوں کو بلوائیوں نے شہید کر دیا،مگر میں رات کے اندھیرے میں وہاں سے بھاگ گئی اور دوڑتے،دوڑتے دریا کے پار پہنچ گئی۔
جب پتہ چلا کہ یہ پاکستان کی سرحد اور حدود ہے تو میں نے رب کا شکر ادا کیا،
اور یہاں درخت کے نیچے انتظار کرنے لگی، کہ کوئی نا کوئی قافلہ یہاں سے ضرور گزرے گا۔
وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی تھی، اس راستے سے مہاجر قافلے گزر رہے تھے۔
باتیں کرتے ہوئے وہ مجھے بہت معصوم لگی، جیسے نرمی ، پاکی، حسن ،نور ،نزاکت، شرافت ، ملاحت ،شہد ،شباب ،شراب ،گلاب، ماہ تاب ،زرق ،برق ،اونچ ،نیچ ،چوٹی ،گہرائی ،تناسب ،لذت ،
حدت ،خنکی ،شدت ،محبت ،خوشبو ،مہرو ،جھیل ،بادل ، گھٹائیں ،روشنی ،شعاعیں ،
شمع ،شاعری ،رقص ،موسیقی ، ساز ،انگ ،ڈھنگ ،رنگ ، شوخ و سنگ ،غرور ،ولولہ ،جوش ،جوانی ،پھبن ،چتون ،بانکپن ، صراحی ،ساغر…..
کائنات میں سب سے مکمل تخلیق
حسن پرستوں کی دیوی: عورت..!!!
ایک معصوم اور مشرقی بےضرر عورت۔
مجھے بہت خوشی ہوئی، کہ یہ بہادر خاتون بلوائیوں کے شر سے بچ کے پاکستان کی حدود میں آ گئی۔اگرچہ وہ اپنا گھر بار،رشتہ دار،دوست،محلے دار،گاوں والے سب کو گنوا چکی تھی۔سب پاکستان کی خاطر شہید ہو گئے۔آہ!
مگر شکر خدا کا یہ بچ کر پاکستان آ گئی۔
میں نے درخواست کی،
نیلوفر صاحبہ! آپ میرے ساتھ آئیے؟
مگر کہاں ؟
محترمہ! میرے ساتھ مہاجر کیمپ چلیں،وہاں آپ جیسی اور بھی اکیلی خواتین جمع ہیں۔آپ وہاں اچھا محسوس کریں گی۔
چلے جلدی کریں۔ ایسا نا ہو کہ بارش بھی شروع ہو جائے، اور راستہ بھی لمبا ہے۔ہمیں پیدل ہی چلنا ہوگا۔اور رات ہونے سے پہلے، پہلے پہنچنا ہوگا۔
نیلوفر بغیر کسی چوں چراں کے،میرے پیچھے روانہ ہوئی۔
سورج غروب ہو چکا تھا،اور سردی کافی بڑھ چکی تھی۔
آندھی بھی چل رہی تھی،مگر ہم نے خدا کا نام لیا، اور مستقل مزاجی سے مسلسل چلتے رہے۔
بالآخر خدا کا شکر، کہ ہم رات ہونے سے پہلے کیمپ پہنچ گئے۔
آج ایسے لگا جیسے یہ کل کی ہی بات ہو۔
اور جب میں اپنے گھر میں داخل ہوا،تو میری سجی سنوری حسین بیوی، میرے لئے گرم،گرم چائے اور ساتھ پکوڑے، بنا کے میز پے رکھ چکی تھی۔
اور مجھے ایک خوبصورت اور دلفریب مسکراہٹ کیساتھ بولی۔۔
ندیم! مجھے شام کی چائے بہت پسند ہے۔
اور میں نے جواب دیا تو دیر کیسی نیلوفر بیگم۔۔
گرم چائے نوش فرمائیں۔۔
نیلوفر بیگم نعرہ لگاتے ہوئے۔
پاکستان زندہ باد۔۔
ختم شد۔۔۔۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.