زبان کا رس

احساس کے انداز تحریر ؛۔ جاویدایازخان

7

ہمارۓ بزرگ نہ تو کوئی  بڑے دانشورہی تھے اور نہ ہی کوئی فلسفی لیکن ان کی زبان سے نکلی ہوئی ہر بات بڑی گہری ہوتی تھی وہ کہتے تھے کہ “الفاظ کی کوئی ہڈیاں نہیں ہوتیں مگر وہ آپکی ہڈیاں  توڑ سکتے ہیں “وہ شاید  وہی جانتے تھے  جو ہم سب جانتے ہیں لیکن ان کے لفظوں کی گہرائی کا اندازہ بڑی دیر سے ہوتا تھا ۔وہ کہتے تھے “الفاظ کا استعمال سوچ سمجھ کر کرو آپکا ایک لفظ تیز دھار چاقو سے بھی زیادہ نقصان دہ ہو سکتا ہے ۔ایک سویڈش دانشور کا قول ہے کہ “کچھ کہنا در حقیقت کچھ کرنے کے مترادف ہوتا ہے ” اسی لیے مثال دی جاتی ہے کہ “پہلے تولو پھر بولو “شاید اسی لیے قدرت نے ہمیں سننے کے لیے تو دو کان دئیے ہیں اور دیکھنے کے لیے دو آنکھیں لیکن بولنے کے لیے صرف ایک زبان دی ہے ہم دونوں کانوں سے مختلف باتیں سن اور دیکھ تو سکتے ہیں لیکن زبان سے صرف ایک ہی بات کر سکتے ہیں ۔گو زبان ایک مختصرلیکن کام کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔انسانی جسم میں زبان دو دھاری تلوار  کی طرح ہوتی ہے ۔انسان اپنی زبان سے جو بھی الفاظ نکالتا ہے۔ اس کےمثبت اور منفی دونوں اثرات ہوتے ہیں ۔خیر وبھلائی پر مشتمل الفاظ انسان کے لیے عزت و احترام اور اجر وثواب کا باعث بن جاتے ہیں  اور اللہ کی خوشنودی بھی حاصل ہوتی ہے لیکن یہی الفاظ اگر شر و فساد یا دل آزاری  پر مشتمل ہوں تو تو انسان تصور سے بڑھ کر نفرت اور ذلت کے ساتھ ساتھ عذاب الہی  کا مستحق بن جاتا ہے ۔اس لیے زبان کو قابو میں رکھنے اور کچ بولنے سے پہلے اس اثرات اور انجام کے بارۓ میں ہزار بار سوچنا ازحد ضروری ہوتا ہے ۔کیونکہ زبان سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں آتی  اور زبان کا زخم تلوار کے زخم سے گہرا ہوتا ہے جبکہ تلوار کا زخم تو بھر جاتا ہے لیکن زبان سے دیا گیا زخم کبھی مندمل نہیں ہو پاتا ۔ انسان کی قدر ومنزلت کا ندازہ اس کی گفتگو سے ہو جاتا ہے کیونکہ ہر شکص کی گفتگو اس کی ذہنی و اخلاقی حالت کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔کہتے ہیں کہ دنشمندوں کی زبان ان کے دل میں ہوتی ہے  اور بےوقوفوں کا دل ان کی زبان میں چھپا ہوتا ہے ۔دانشمند پہلے دل اور عقل کے معیار پر کسی لفظ کو پرکھتا ،جانچتا اور تولتا ہے پھر بولتا ہے جبکہ بےوقوف پہلے بولتا اور پھر سوچتا ہے ۔بداخلا ق اور کڑوی زبان والوں کے دل  کبھی کوئی نہیں دیکھتا بس زبان ہی کافی ہو جاتی ہے ۔

کہتے ہیں کہ دو بھائی  سفر کے دوران راستہ بھول گئےاور ایک گاوں میں پہنچے جہاں ان کا کوئی وقف نہ تھا ۔رات ہو چلی تھی ایک گھر دکھائی دیا تو اس کے چھوٹے سے دروازہ کو کھٹکھٹایا ۔ایک بوڑھی عورت نے دروازہ کھولا تو انہوں نے اسے بتایا کہ ہم بھٹک کر راستہ بھول گئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رات گزارنے کے لیے ٹھکانہ مل جاۓ تو صبح پھر اپنی راہ لیں ۔بوڑھی ضعیف عورت کو ترس آگیا کہنے لگی اندر آجاو ۔لیکن میرے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں ہے ۔وہ کہنے لگے کوئی بات نہیں ہم بازار سے کچھ لے آتے ہیں تاکہ آپ اور ہم کچھ پکا کر کھا سکیں  ۔وہ بازار سے دلیہ لے آۓ  جو اس بوڑھی عورت نے آگ جلا کر تیار کرنا شروع کردیا  اور وہ دونوں اس کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے لگے ۔ان میں سے ایک بھائی زبان کا بڑا پھوہڑ واقعہ ہوا تھا پوچھنے لگا ۔آپکا گھر بہت پرانہ اور بوسیدہ ہے اور اماں جی آپ کے گھر کا دروازہ  تو بہت ہی چھوٹا سا ہے ۔میں سوچ رہا ہوں کہ خدانخواستہ یہ گھر  چھٹ گر جاۓ اور آپ اس میں دب کر وفات پا جائیں تو اس دروازۓ سے تو آپکا جنازہ بھی نہیں نکل سکے گا۔بوڑھی خاتون کو بڑا غصہ آیا اس نے پکتی ہوئی ہنڈیا اس کی جھولی  میں ڈال کر باہر نکال دیا ۔دوسرے بھائی نے معذرت کرنے کی کوشش کی مگر بوڑھی عورت کہنے لگی میں تمہیں پناہ دۓ کر کھانا بنا رہی ہوں اور تمہارا بھائی میرۓ مرنے کی بات کر رہا ہے چلو نکلو یہاں سے اور میری نظروں سے دور ہو جاؤ ۔دونوں بھائی اپنی جھولی میں کچی پکی ہنڈیا کا شوربا لیکر گلی میں نکلے تو ان کی جھولی سے وہ شوربا  ٹپکنے لگا ۔لوگوں نے پوچھا بھائی آپ کے کپڑے سے کچھ ٹپک کر گرتا جارہا ہے  تو دوسرۓ بھائی نے شرمندگی سے جواب دیا کچھ نہیں جناب یہ تو ہمارۓ بھائی کی زبان کا رس ٹپک رہاہے ۔اس سطح کی بات کو ہم “چول ” مارنا کہتے ہیں ۔اس طرح کی  چول یا زبان کا رس  اکثر ہر سطح کے لوگوں کی زبان سے ٹپکتا دکھائی دیتا ہے  ایک واقعہ فیس بک پر ہی پڑھا تھا کہ ایک صاحب نے نئی نئی کار لی اور بڑے فخر سے اپنے سینئر استاد کو راستے میں ڈراپ کرنے کی پیشکش کردی ۔استاد بہت خوش ہوۓ اور ان کے ساتھ کار میں بیٹھ گئے  تو انہوں نے شوخی سےہنس کر  کہا استاد جی! آپ کہاں بس پر خوار ہونگے میں بھی تو آپ کے گھر ہی کی جانب ہی جارہا ہوں سوچا آپ کو راستے میں چھوڑ دوں گا ۔ استاد صاحب بڑے ہی نفیس اور شان دار انسان تھے وہ ان کی چول محسوس کر گئے اور مسکرا کر بولے ”بیٹا میں پوری زندگی بسوں پر خوار ہوا ہوںاور میں آج بھی خوار ہو سکتا ہوں لیکن میں نے سوچاکہ کیوں نہ میں ایک گھنٹہ آپ جیسے پڑھے لکھے نوجوان کی کمپنی سے لطف لے لیتا ہوں  تو ان صاحب  کی کمر تک پسینے میں تر ہو گئی‘ انہیں آج بھی جب یہ واقعہ یاد آتا ہے تو وہ شرمندہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن انہوں نے زندگی میں جب بھی کسی کو لفٹ دی یا کسی کے لیے گاڑی بھجوائی تو ہمیشہ عاجزی سے عرض کیا‘ سر آپ اگر میرے ساتھ جائیں گے تو یہ میری عزت افزائی ہو گی‘ مجھے آپ سے سیکھنے کا موقع ملے گا یا پھر سر میرا ڈرائیور وہ جگہ اچھی طرح جانتا ہے‘ یہ آپ کو آسانی سے لے جائے گا یا لے آئے گااور اس سے آپ کا بہت سا وقت بچ جائے گا۔یہ سب الفاظ کی ادائیگی کا کمال ہے جو ہمیں ایک جانب شرمندہ کر دیتے ہیں تو دوسری جانب شرمندگی سے بچاتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ بھلا لفظوں سے کیا ہوتا ہے ؟ حالانکہ لفظ ہی” قائل “کرتے ہیں اور لفظ ہی “مائل “کرتے ہیں اور لفظ  ہی تو ” گھائل ” کر دیتے ہیں ۔ 

جی ہاں ہماری زبان ہی ہمیں لوگوں کے دلوں عزت اور زبان ہی ہمیں لوگوں کی نفرت کا شکار کردیتی ہے ۔یہ درست ہے کہ الفاظ انسان کی شخصیت اور خیالات کی عکاسی کرتے ہیں ۔الفاظ کا استعمال  ہی کسی شخصیت کو تعمیر یا بربا د کرنےکا باعث بنتا ہے ۔الفاظ کا مناسب اور محتاط استعمال ہمیں دوسروں کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے اور اپنی شخصیت کو بہتر طور پر پیش کرنے میں مدد دیتا ہے ۔جو پل میں خوشی کو غصے اور غصے کو خوشی اور پھر مسکراہٹ اور مسکراہٹ کو آنسوں میں بدلنے میں کچھ وقت نہیں لیتا ۔جہاں مثبت الفاظ  شہد کی طرح میٹھے ہوتے ہیں وہیں منفی الفاظ تلوار سے زیادہ گہرے زخم بھی دۓ جاتے ہیں ۔سخت اور تند الفاظ زہر قاتل ہوتے ہیں جبکہ میٹھے بول کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔زبان ہی ہے جس سے ادا ہونے والے لفظ انسان کو عزت بخشتے ہیں اور یہی الفاظ اسے ذلیل و رسوا بھی کر دیتے ہیں ۔زبان کو سر کا محافظ  یا جان کا دشمن ہمارۓ الفاظ ہی بناتے ہیں ۔کہتے ہیں کہ ہمیشہ پرندۓ اپنے پاوں اور انسان اپنی زبان کی وجہ سے جال میں پھنستے ہیں ۔اس لیے گفتگو میں نرمی  اور مثبت رویہ اختیار کریں کیونکہ لہجوں کا اثر الفاظ سے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔حدیث مبارک ہے کہ “انسان کو اوندھے منہ دوزخ میں گرانے والی چیز اس کی اپنی زبان سے کاٹی ہوئی کھیتی ہے ( ترمذی ۲۶۱۶ )  

آج کل ہمارۓ معاشرۓ میں بڑھتی ہوئی تلخیاں اور بےچینی کے پس پردہ ہماری زبان کا رس ہی ہوتا ہے جو ٹپک ٹپک کر پورۓ ماحول کو اپنی لپیٹ میں لیتا جارہا ہے ۔ہمارۓ گھروں ،خاندانوں کے باہمی تعلقات کی تباہی کی ذمہ داری اسی بےلگام زبان  کی وجہ سے ہو رہی ہے ۔سیاسی میدان میں زبان کے کارنامے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ واپسی کا کوئی راستہ دکھائی نہیں دیتا ۔باہمی نفرتیں اور عداوتیں اسی زبان کے چند لفظوں کی وجہ سے آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ہمارۓ ایوانوں  ،جلسوں اور بیانوں میں ہر روز زبان کا یہ رس ٹپکتا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔اختلاف چاہے سیاسی ہو یا نظریاتی اسے دشمنی بنا کر مرنے مارنے اور تلخ الفاظ کا استعمال کرنے کا طریقہ معاشرۓ کے لیے ایک مہلک زہر قاتل ہے ۔حدیث مبارک ہے کہ ” مومن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرۓ مسلمان محفوظ ہوں ” آپ ؐ نے فرمایا کہ ” جو شخص مجھے اپنی زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں “ اس لیے ہمیشہ گفتگو کے دوران تدبر و تفکر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے  کیونکہ زبان کی ذرا سی بے اعتدالی  انسان کو شرمندگی کے ساتھ ساتھ دنیا وآخرت کےکئی اور بھی آلام و مصائب سے دوچار کر سکتی ہے ۔یاد رہے کہ زبان ایک ایسا پیراہن ہے جس کو اگر نفاست سے نہیں پہنا جاتا تو پوری شخصیت ہی برہنہ ہو جاتی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.