منی پور: ایک ریاست جو آزاد رہنا چاہتی تھی
تقسیمِ ہند، بھارتی توسیع پسندی، اور منی پور کا غیر رضاکارانہ الحاق
تعارف:
جب برصغیر 1947 میں آزادی کے دہانے پر کھڑا تھا، اُس وقت صرف ہندوستان اور پاکستان کی تشکیل نہیں ہو رہی تھی بلکہ سیکڑوں نوابی و ریاستی حکومتوں کے مستقبل کا بھی فیصلہ ہونا تھا۔ ان میں ایک چھوٹی مگر تہذیبی، لسانی اور نسلی لحاظ سے منفرد ریاست تھی — منی پور۔ برصغیر کی تقسیم کے وقت منی پور نے نہ صرف آزادی کا انتخاب کیا بلکہ باقاعدہ آئینی حکومت بھی قائم کی۔ مگر افسوس، بھارتی توسیع پسندانہ عزائم نے اسے زبردستی بھارت میں شامل کر لیا، جو آج بھی وہاں کے عوام کے دلوں میں ایک زندہ زخم ہے۔
منی پور کی تاریخی حیثیت:
منی پور ایک قدیم ریاست ہے جس کی تہذیب 2000 سال پرانی بتائی جاتی ہے۔ یہاں کے عوام بنیادی طور پر میئتئی (Meitei) نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی زبان، ثقافت اور رسم و رواج مکمل طور پر شمالی بھارت سے جدا ہیں۔ برطانوی دور میں منی پور ایک نیم خودمختار ریاست تھی، یعنی داخلی خودمختاری کے ساتھ ساتھ خارجہ امور میں برطانیہ کا اثر موجود تھا۔
تقسیم ہند اور ریاستوں کی خودمختاری کا اصول:
جب 1947 میں برطانیہ نے برصغیر کو آزاد کرنے کا اعلان کیا، تو اُس وقت لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور برطانوی پالیسی کے مطابق تمام نوابی ریاستوں کو یہ حق دیا گیا تھا کہ وہ:
1. ہندوستان میں شامل ہوں
2. پاکستان میں شامل ہوں
3. مکمل آزادی کا راستہ اختیار کریں
یہی اصول مہاراجہ بودھ چندر سنگھ، حیدرآباد کے نظام، اور دیگر حکمرانوں کو دیا گیا۔
منی پور کا اعلانِ آزادی (1947):
منی پور کے مہاراجہ بودھ چندر سنگھ نے 11 اگست 1947 کو بھارت اور پاکستان دونوں میں شامل نہ ہونے کا اعلان کیا۔ اس دن انہوں نے “منی پور اسٹیٹ کانسٹی ٹیوشن ایکٹ 1947” نافذ کیا، جو منی پور کی پہلی تحریری آئینی دستاویز تھی۔ اس میں:
عوامی نمائندہ اسمبلی کا قیام
مہاراجہ کے اختیارات کو محدود کرنا
ریاستی حکومت کا قیام
جیسے اہم نکات شامل تھے۔
یہ آئینی اقدام اس بات کا ثبوت ہے کہ منی پور آزادی کے بعد جمہوری راستہ اختیار کرنا چاہتی تھی، اور بھارت یا پاکستان کا حصہ نہیں بننا چاہتی تھی۔
بھارتی توسیع پسندی اور الحاق کا ڈرامہ (1949):
جب بھارت کو علم ہوا کہ منی پور ایک آزاد ریاست کی بنیاد رکھ چکی ہے تو اُس نے اسے کسی صورت برداشت نہ کیا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو اور اُس وقت کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی قیادت میں بھارت نے “ریاستوں کے انضمام” کی پالیسی بنائی، جس کے تحت تمام خودمختار یا نیم خودمختار ریاستوں کو بھارت میں ضم کیا جانا تھا۔
منی پور پر دباؤ بڑھتا گیا، حتیٰ کہ ستمبر 1949 میں مہاراجہ بودھ چندر سنگھ کو شلّانگ (Shilong) بلایا گیا۔ یہاں بھارت کے نمائندوں نے انہیں الگ تھلگ رکھا، رابطہ دنیا سے کاٹ دیا، اور شدید دباؤ، دھمکیوں اور نفسیاتی حربوں سے مجبور کیا کہ وہ “انسٹرومنٹ آف اکسیشن” پر دستخط کریں۔
یہ الحاق:
بغیر عوامی مشورے کے ہوا
بغیر منی پوری اسمبلی کی منظوری کے ہوا
مکمل طور پر زبردستی اور غیر جمہوری انداز میں ہوا
مہاراجہ خود بعد میں اس “الحاق” کو غیر آئینی اور زبردستی قرار دے چکے ہیں۔
عوامی ردِعمل اور مزاحمت:
اس الحاق کے بعد منی پور میں عوامی ناراضی نے جنم لیا۔ 1950 کی دہائی سے اب تک متعدد علیحدگی پسند تحریکیں وجود میں آ چکی ہیں، جن کا بنیادی مطالبہ منی پور کی پرانی خودمختاری کی بحالی ہے۔ ان میں سب سے مشہور گروپ UNLF (United National Liberation Front) ہے، جو 1964 سے منی پور کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔
منی پور میں وقتاً فوقتاً ہڑتالیں، مسلح جھڑپیں، اور فوجی آپریشن ہوتے رہے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ الحاق کو آج تک قبولِ عام حاصل نہیں۔
2025 کا آزادی کا اعلان:
مارچ 2025 میں برطانیہ میں موجود منی پوری رہنماؤں کی جانب سے “Government of Manipur in Exile” کے تحت آزادی کا اعلان کیا گیا۔ یہ جلا وطن حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ:
بھارت نے 1949 میں غیر قانونی قبضہ کیا
منی پور کو ایک خودمختار ریاست کے طور پر تسلیم کیا جائے
اقوامِ متحدہ اس معاملے میں مداخلت کرے
یہ مطالبہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 1 (حق خودارادیت) کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
بھارت کا موقف:
بھارت اس اعلان کو مکمل طور پر مسترد کر چکا ہے۔ بھارتی وزارت داخلہ نے اسے ملک دشمن سرگرمی قرار دیتے ہوئے قانونی کارروائی کا عندیہ دیا ہے۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ 1949 کا الحاق قانونی، آئینی اور تاریخی تھا، لیکن اس دعوے کو نہ صرف منی پور کے عوام بلکہ بین الاقوامی ماہرین بھی چیلنج کرتے ہیں۔
خلاصہ:
منی پور کی کہانی برصغیر کی ان ریاستوں میں سب سے منفرد ہے جنہوں نے آزادی کا خواب دیکھا مگر بھارتی توسیع پسندی کا نشانہ بنیں۔ یہ ایک ایسی ریاست تھی جو جمہوریت، آئینی حکومت اور خودمختاری کی طرف بڑھ رہی تھی، مگر اسے زبردستی ایک بڑے ملک کی سیاسی بھوک کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔
2025 کا آزادی کا اعلان اسی تاریخی ناانصافی کا ردِعمل ہے، اور شاید یہ وقت ہے کہ عالمی برادری منی پور جیسے معاملات کو سنجیدگی سے سنے، تاکہ اقوام کا حقِ خودارادیت محض ایک نظریاتی بات نہ رہے بلکہ عملی صورت بھی اختیار کرے۔