پاک ‘ امریکہ وزرائے خارجہ کا ٹیلی فونک رابطہ، باہمی دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال
آج کا اداریہ
امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحٰق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے، جبکہ افغانستان میں امریکی فوجی سامان کا معاملہ حل کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے جاری اعلامیے میں بتایا کہ پاکستان، امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پر عزم ہے۔
امریکی افواج کا چھوڑا ہوا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ میں لگنے پر پہلی مرتبہ کھلے عام بات 2023 میں اس کے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کی تھی
اگرچہ اس سے قبل بھی اس بارے میں باتیں ہوتی رہیں لیکن انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے کی سنگینی بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ جدید خودکار اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے خطے کے امن کے لیے ایک نیا چیلنج بن گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کی طرف سے چھوڑا گیا اسلحہ عسکریت پسندوں کے ہاتھ لگنے سے ان کی پاکستان کے خلاف لڑائی کی استعداد میں اضافہ ہوا ہے کیوں کہ ان کے بقول شدت پسندوں کے ہاتھ لگنے والے فوجی سازوں سامان میں جدید خودکار اسلحے کے علاوہ رات کی تاریکی میں دیکھنے والی ’نائٹ ویژن عینک‘ بھی شامل ہیں۔
افغان طالبان نے اگست 2021 میں کابل کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا جس کے بعد امریکہ اور اس کی اتحادی افواج نے لگ بھگ دو دہائی تک افغانستان میں رہنے کے بعد وہاں سے فوری انخلا کا فیصلہ کیا اور اس دوران وہ بھاری مقدار میں اسلحہ چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔
پاکستان اس معاملے میں اگرچہ امریکہ کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا البتہ یہ ضرور کہا جاتا رہا ہے کہ اس معاملے میں مربوط تعاون اور انتظام کی ضرورت تھی۔
کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر عسکریت پسند گروں کے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں گذشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں تیزی آئی ہے اور پاکستان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے جنگجو افغانستان کی سرزمین پر موجود ہیں جہاں سے وہ پاکستان پر حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔
تاہم افغان طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس عزم پر قائم ہے کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ملک خلاف شدت پسندی کے لیے استعمال نہ ہوا۔
جب سے افغانستان میں طالبان کی حکومت بنی اسلام آباد اور کابل کے تعلقات میں بتدریج تلخی آئی ہے اور کی بڑی وجہ پاکستان میں شدت پسندوں کے بڑھتے ہوئے حملے ہیں۔
پاکستانی حکومت تواتر سے افغان طالبان کی حکومت سے یہ مطالبہ کرتی آئی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کی شدت پسند افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ کر سکیں۔
اگرچہ طالبان اس بات کی یقین دہانی بھی کراتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں لیکن شاید پوری طرح ایسے حملوں کو روکنا ان کے بس کی بات بھی نہیں کیوں وہاں موجود ٹی ٹی پی سمیت دیگر عسکریت پسند گروپوں کو مقامی آبادی کی حمایت تو حاصل ہی لیکن ساتھ ہی اب ان کے پاس ایسے ہتھیار اور وسائل بھی بھی آ گئے ہیں کہ انہیں روکنا یا ان سے نمٹنا آسان نہیں۔
ان حالات میں عسکریت پسندوں کی عددی طاقت ہی نہیں بلکہ ان کے زیراستعمال جدید اسلحہ بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا سکیورٹی چلینج ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق گزشتہ روز اسحٰق ڈار نے امریکا کے ساتھ تجارت، سرمایہ کاری اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں تعاون کی اہمیت پر زور دیا، جب کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے پاکستان کے معدنیات سمیت ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا۔
اعلامیے کے مطابق امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان معاشی تعاون مستقبل کے تعلقات کے لیے اہم ہے، اسحٰق ڈار نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر کیا۔
ترجمان کے مطابق امریکی وزیر خارجہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کاوشوں کو سراہا، انسداد دہشت گردی کے لیے مستقبل کے تعاون کے لیے امریکا کی جانب سے دلچسپی کا بھی اظہار کیا گیا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے بتایا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان افغانستان کی صورتحال پر بھی بات چیت ہوئی، امریکی وزیر خارجہ نے افغانستان میں امریکی فوجی سامان کا معاملہ حل کرنے پر بھی اتفاق کیا۔
اس موقع پر وزیر خارجہ اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید مستحکم کرکے کے لیے پر عزم ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان معاشی تعاون مستقبل کے تعلقات کے لیے اہم ہے۔
نئی امریکی انتظامیہ کے آنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان یہ پہلا اعلی سطحی رابطہ نہیں اس سے قبل وزیر داخلہ محسن رضا نقوی بھی واشنگٹن کا دورہ کر چکے ہیں اپنے دورے کے دوران نئی ٹرمپ انتظامیہ کے اعلی عہدیداران دہشت گردی سے نبزد آزما پاکستان کی اندرونی صورت حال سے بھی آگاہ کیا تھا ۔
اب جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کا نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحٰق ڈار سے ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے، اورافغانستان میں امریکی فوجی سامان کا معاملہ حل کرنے پر بھی اتفاق اس بات کا غمازی ہےکہ دونوںممالک کو اس معاملے کی سنگینی کا ادراک ہے اور اس مسئلے کے حل کیلیے باہمی تعاون پر اتفاق خوش آئند ہے۔