آرمی چیف کا کشمیر سے یکجہتی کا اظہار

(تحریر: عبدالباسط علوی)

0

تمام پاکستانی سیاسی رہنماؤں نے مسئلہ کشمیر کے لیے بے لوث اور دو ٹوک عزم کا مظاہرہ کیا ہے ۔ قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر شہباز شریف کی موجودہ قیادت تک ، کشمیر کے لیے غیر متزلزل محبت اور حمایت کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کے لیے پاکستان کی لگن کی عکاسی کرتی ہے ۔ مختلف ذرائع سے، چاہے سفارتی کوششیں ہوں ، بین الاقوامی فورمز ہوں یا عوامی تقریریں، پاکستان کی قیادت نے مسلسل کشمیر کے مقصد کی وکالت کی ہے ۔ کشمیر کے لیے قربانیاں ، حمایت اور گہرا پیار پاکستان کی شناخت کا ایک لازمی حصہ بن گیا ہے جو پاکستان کے ساتھ ثقافتی ، مذہبی اور تاریخی تعلقات رکھنے والے خطے کے ساتھ یکجہتی کی نمائندگی کرتا ہے ۔ پاکستان کے رہنماؤں نے ہمیشہ کشمیر کو ایک ایسے مقصد کے طور پر دیکھا ہے جس کے لیے وہ لڑنے مرنے کو تیار ہیں اور کشمیری عوام کے لیے ان کی گہری محبت اور عزم انصاف اور امن کی جاری جدوجہد میں ایک محرک قوت بنی ہوئی ہے ۔ پاکستان کے لیے کشمیر محض ایک علاقائی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی اہمیت کا معاملہ ہے جس کی جڑیں خطے کے ساتھ جذباتی ، ثقافتی اور مذہبی تعلقات سے جڑی ہیں ۔ کئی سالوں سے پاک فوج نے کشمیری عوام کی خود ارادیت کی امنگوں کے محافظ کے طور پر کھڑے ہو کر مسئلہ کشمیر کی حمایت میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ کشمیر کے لیے پاکستانی فوج کی قربانیاں ، ہمت اور لگن خطے کے لیے اس کے اٹل عزم کا ثبوت ہے ۔

1947 میں برطانوی ہندوستان کی تقسیم کے بعد جموں و کشمیر کی شاہی ریاست ہندوستان اور پاکستان کے درمیان تنازعہ کا مرکز بن گئی ۔ خطے کی مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود ، کشمیر کے مہاراجہ نے ہندوستان میں شامل ہونے کا انتخاب کیا ، جس سے ایک شدید جنگ چھڑ گئی ۔ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان نے ہندوستانی افواج کے خلاف مزاحمت میں مقامی آبادی کی مدد کے لیے اپنی افواج کو متحرک کیا ۔ اگرچہ ابتدائی طور پر وہ اس میں براہ راست ملوث نہیں تھا لیکن پاکستان نے کشمیر کی اسٹریٹجک اہمیت کو تسلیم کیا اور قبائلی قوتوں سمیت خیبر پختونخوا اور آزاد جموں و کشمیر کے مجاہدین نے جدوجہد میں شمولیت اختیار کی ۔ پاکستانی حکومت نے جلد ہی کشمیریوں کی مدد کے لیے پاکستانی فوج کو تعینات کر دیا اور خطے کے کچھ حصوں کو محفوظ بنانے کے لیے جنگی کارروائیوں میں مصروف ہو گئی ۔ پاکستانی افواج نے ابتدائی کامیابیاں حاصل کیں لیکن جنگ 1948 میں اقوام متحدہ کی ثالثی میں جنگ بندی کے ساتھ ختم ہوئی ۔ پاکستان نے آزاد جموں و کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقے پر کنٹرول حاصل کر لیا ، لیکن کشمیر کی حتمی حیثیت کا بڑا مسئلہ حل نہیں ہوا ۔ اس پہلے تنازعہ کے دوران پاکستانی فوج کی قربانیوں ، جس میں ہزاروں فوجی یا تو اپنی جانیں گنوا بیٹھے یا زخمی ہوئے ، نے کشمیر میں پاکستان کی مسلسل شمولیت کی بنیاد رکھی ۔

1965 میں ہندوستان اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر ایک بار پھر کشیدگی بھڑک اٹھی ، جس کے نتیجے میں مکمل جنگ ہوئی ۔ پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کی ذیادہ تعداد اور زیادہ اسلحہ کے باوجود پاکستان کی سرحدوں اور کشمیری آبادی کے دفاع میں قابل ذکر ہمت اور اسٹریٹجک صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا ۔1965 کے تنازعہ کے دوران پاکستان کی فوجی حکمت عملی میں آپریشن جبرالٹر شامل تھا ، جس کا مقصد ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر میں کاروائی کرنا اور مقامی آزادی پسندوں کی مدد کرنا تھا ۔ پاکستانی فوج نے کشمیری آزادی پسندوں کے ساتھ مل کر کام کیا ، ہندوستانی افواج کو انگیج کیا اور جموں و کشمیر کے دارالحکومت سری نگر کی طرف دھکیل دیا جس کا مقصد کشمیر کو آزاد کرانا اور اس کے لوگوں کو اپنے مستقبل کا تعین کرنے کی اجازت دلانا تھا ۔ اس جنگ کے دوران پاکستانی فوج کی قابل ذکر شراکت میں ہندوستانی حملوں کے خلاف زبردست دفاع شامل تھا ، جس میں لاہور اور سیالکوٹ کے محاذوں کی جنگیں بھی شامل تھیں ۔ پاکستانی افواج نے اپنی زمین پر قبضہ برقرار رکھا اور ہندوستانی فوج کو کافی نقصان پہنچایا۔ فضائی کارروائیوں ، زمینی حملوں اور مربوط حملوں میں زبردست مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے پاکستانی فوج نے بیمثال لچک اور بہادری کا مظاہرہ کیا ۔ اگرچہ یہ جنگ اقوام متحدہ کی مداخلت کی وجہ سے ختم ہوئی لیکن اس نے مسئلہ کشمیر کے لیے پاکستان کے عزم کو تقویت بخشی اور 1965 میں پاکستانی فوج کی قربانیوں نے اس جاری جدوجہد میں ایک اہم باب کی نشاندہی کی ۔

1999 کے کارگل تنازعہ نے کشمیر کے سلسلے میں پاکستان کی فوجی تاریخ میں ایک اور اہم باب کا اضافہ کیا ۔ اس تنازعہ میں ، جو ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیر کے ضلع کارگل میں پیش آیا ، پاکستانی فوجیوں نے کشمیری حریت پسندوں کے ساتھ مل کر لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ساتھ اسٹریٹجک پوزیشنوں کو محفوظ بنانے کے لیے علاقے میں کاروائی کی ۔ کارگل تنازعہ کو پاکستانی فوج کی بے پناہ ہمت اور قربانیوں کے لیے یاد کیا جاتا ہے ، جس نے مشکل اور پہاڑی علاقوں پر بہادری سے جنگ لڑی ۔ پاک فوج کے اسپیشل سروسز گروپ (ایس ایس جی) اور دیگر ایلیٹ یونٹوں نے پہاڑی چوکیوں کو محفوظ بنانے اور ہندوستانی افواج کو شدید لڑائی میں انگیج کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ محدود وسائل اور مشکل علاقے کے باوجود ، پاکستانی فوج نے غیر معمولی مہارت اور استقامت کا مظاہرہ کیا ۔ اگرچہ یہ تنازعہ بالآخر ایک مکمل فوجی مشغولیت کی جانب بڑھ گیا ، لیکن بین الاقوامی دباؤ جنگ بندی کا باعث بنا ۔ اگرچہ جنگ کے نتیجے میں دونوں فریقوں میں سے کسی کی فیصلہ کن فتح نہیں ہوئی ، لیکن کارگل تنازعہ کے دوران پاکستانی فوجیوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں ، جو کشمیر کی جدوجہد کا ایک اور اہم باب ہے ۔ کشمیر پر سب سے شدید

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.