ہمارے ملک کے معاشی حالات سب کے سامنے ہیں۔ جس کی وجہ آئے روز کہیں خود کشیاں ہو رہی ہیں تو کہیں لوگ اس نظام سے بیزار ہو کر غیر قانونی طریقے سے ڈنکی لگا کر بیرون ملک بھاگنے پر مجبور ہیں، جس کی ایک مثال حالیہ غیر قانونی طور پر سپین اور یونان جانے والوں کی ہے۔ جس میں درجنوں قیمتی انسانی جانوں کا ضیاع ہوا۔ اس سلسلے میں ایف آئی اے کا انسانی سمگلنگ میں ملوث عناصر کے خلاف ملک گیر کریک ڈاون جاری ہے۔ ایف آئی اے نے ایک ماہ کے دوران 185 ہیومن سمگلرز اور ایجنٹس کو گرفتار کیا۔ ریڈ بک میں شامل 38 انتہائی مطلوب انسانی سمگلروں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ اسی طرح سال 2023 ء کے یونان کشتی حادثہ کے حوالے سے 15 اشتہاریوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ انسانی سمگلنگ میں ملوث ملزمان کی 45 کروڑ روپے سے زائد مالیت کی جائیداد ضبط کر کے ان عناصر کے زیر استعمال 7 کروڑ روپے کے بینک اکاؤنٹس منجمد بھی کیے گئے۔ انٹرپول کے ذریعے انسانی سمگلنگ میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیے 20 ریڈ نوٹسز جاری کیے گئے۔ کشتی حادثے میں ملوث ایجنٹوں کی گرفتاری کے لیے تمام تر وسائل کو بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ ملک کے تمام ائیر پورٹس پر تعینات افسران ایجنٹوں کے گرفتاری کے لیے کڑی نگرانی جاری ہے۔ ائیرپورٹ انچارجز اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ کوئی بھی ایجنٹ بیرون ملک فرار نہ ہو پائے۔
جس ملک میں ایک پلیٹ چاول کی خاطر لوگ اپنی جان نچھاور کرتے ہو، جہاں چاول کی پلیٹ دے مذہبی اور سیاسی اجتماعات اور جلسے منعقد کر کے لوگوں کو ستر سے زائد سالوں سے بیوقوف بنایا جا رہا ہو۔ جہاں غربت سب سے بڑا گناہ ہو اور امیر کی ہر بات سب سے معتبر ہو۔ جہاں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر ہوں اور لوگ اس کچرے سے پیٹ بھر کر کھاتے ہوں، وہاں کے بے بس عوام کا حال کیا ہوگا؟ ہمارا سوال یہ ہے کہ جو مذہبی یا سیاسی راہ نما اپنی جماعت یا اپنے منصب کے حصول کے لیے ایک دن کے جلسے جلوس پر دس دس کروڑ لگا سکتے ہیں وہ غریب عوام کو بھوکا پیاسا دیکھ کر کیوں نہیں کُڑھتے، کب تک یہ عوام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر کے چوستے رہیں گے؟ کب عوام ان کا احتساب کریں گے۔ کب تک مائیں بچوں سے محروم اور بیوہ ہوتی رہیں گی۔ محترم رفاقت علی رانجھا ایک واقعہ نقل کرتے ہیں۔ جو غیر قانونی بیرون ملک جانے والے تمام افراد کے لیے باعث عبرت ہے۔
” گھر میں پچھلے چالیس دن سے اس کا انتظار ہو رہا تھا۔ ماں بہن اور چھوٹا بھائی دن بھر اس کا انتظار کرتے اور تھک ہار کر شام کو اگلی صبح کے انتظار میں بیٹھ جاتے۔ چھوٹا پوچھتا کہ ماں بھائی کب آئے گا؟ مگر ماں کی خالی آنکھوں میں کوئی جواب نہ پا کر وہ خاموش ہو جاتا۔
ابا کی وفات کے بعد اپنی بہن، بھائی اور ماں پر مشتمل خاندان کے خوش حال مستقبل کا واحد سہارا تھا۔ والد کے آنکھ موندنے کے بعد وہ اپنے کل اثاثہ جات جو گھر کے علاوہ فقط پچاس ہزار روپے بنتے تھے بیچ کر یورپ جانے کے لیے ایک خواب فروش کو دے آیا تھا۔ باقی رقم وہاں پہنچ کر کما کر ادا کرنے کا زبانی معاہدہ کیا۔ وہ ماں اور بہن بھائیوں کے خواب سچ کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا تھا۔ جاتے جاتے ماں بہت تڑپی تھی بہت سمجھایا تھا مگر اس کو جانا تھا سو وہ چلا گیا تھا۔
اب پچھلے چالیس روز سے اس کی واپسی کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ آخر ایک روز دوپہر کو ہمسائے کے فون پر ماموں جان نے اطلاع دی کہ وہ ایک گھنٹے میں پہنچ رہا ہے۔ خبر سنتے ہی ماں اور بہن بھائی کے چہرے ایک بار انجانی آسودگی سی چمک اٹھی۔ اگلے ہی لمحے ان پر مُردنی چھا گئی۔ اماں بھائی آ رہا ہے؟ ننھی گڑیا نے پھر پوچھا تاہم جواب نہ پا کر وہ گھر میں موجود مہمانوں کے جھرمٹ میں گم ہو گئی اور ساتھ ہی مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر اس کے پہنچ جانے کا اعلان ہوا۔ اعلان ختم ہونے کے ساتھ ہی منتظر لوگوں سے بھری گلی میں ایمبولینس کا بھیانک ہارن چلانے لگا اور بالآخر ایمبولینس گلی میں گھر کی طرف مڑ گئی۔
ایمبولینس کے رکتے ہی لوگوں کا ہجوم گاڑی کے گرد اُمڈ آیا- ایمبولینس کا دروازہ کُھلا اور اس کے ساتھ ہی ایک بھیانک اور انجانی بدبو کا بَھبکا باہر کو لپکا۔ چند لوگ اپنے مُنہ پر ہاتھ رکھے ہوئے پیچھے ہٹے اور بھیڑ چھٹنا شروع ہو گئی۔ چند ہی لمحوں میں سوائے قریبی احباب کے سب ایک حد فاصل پہ کھڑے تھے۔ ماں جو مسلسل چالیس دنوں سے رو رو کے آنسو خشک کر چکی تھی ایک آنسو کا بھی مزید اضافہ نہ کر سکی۔
تابوت میں کیمیکل لگی لاش کو ڈھاٹے باندھ کر اتارا گیا اور گھر کے اس چاند کو آنگن میں فقط پانچ منٹ کے لیے اتارا گیا۔ اس کے بعد تابوت کو پہلے سے تیار شدہ قبر میں اس یقین کے ساتھ اتارا گیا کہ ایران والوں نے تابوت میں رکھتے وقت میت کو غسل دے دیا تھا۔ اپنے وطن سے دور سپنوں کو آسودہ کرنے کے لیے گئے، اس جوان کی امنگیں چالییس روز بعد اس کی اپنی ہی مٹی میں تار تار جسد خاکی اور ماں کے کرچی کرچی خوابوں کے ساتھ ہی دفن ہوئیں۔
یہ لوگ ایران کے راستے یونان کی سرحد عبور کرنے سے قبل ہی زندگی کی حدود پار کر گئے تھے۔ اپنے اجداد کے دیس سے اُکتائے ہوئے یہ لوگ کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے کے مصداق دانستہ یا نا دانستہ ہی سہی، اس دیس چلے گئے جہاں آسودگی، رزق، وطن، روزگار اور یورپ کے لفظ بے معنی ہوتے ہیں۔ جہاں آرزوئیں تہہ خاک بستی ہیں۔ ان لوگوں کو اجل ایک انسانی ایجنٹ کے روپ میں ملا تھا جو انھیں خواب دکھا کر اس دہلیز پہ لے آیا جہاں بے رحم موت ان سہانی زندگی اور حسین