حب الوطنی کا اظہار

روداد خیال ۔۔۔۔۔صفدر علی خاں

8

 

پاکستان کی حالیہ سیاست میں افراتفری کا عنصر نمایاں رہا ہے ،ماضی میں بھی سیاستدان یوٹرن لیتے رہے اور وفاداریاں بھی تبدیل کرتے رہے مگر جس تیز رفتاری کے ساتھ سیاسی منظر نامہ موجودہ عہد میں تبدیل ہوا پہلے کہیں اسکی نظیر نہیں ملتی ،تاہم سیاستدانوں کے باہمی تنازعات سے پھیلتی غیر یقینی صورتحال سے ہی سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا جس سے کئی طرح کی خرابیوں نے جنم لیا ،معاشی ابتری اسی ماحول کے سبب پھیلی ،ملکی ساکھ کو بھی سب سے زیادہ نقصان موجودہ سیاسی صورتحال سے پہنچا ،تاہم ملک میں کچھ سیاسی جماعتوں کی جانب سے سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کرنے پر کچھ حالات بہتر ہوئے ہیں ،ملکی معیشت کی کچھ سانسیں چلنے لگی ہیں اور اسی وجہ سے عوام کو بھی کچھ ریلیف دینے کی صورت سامنے آ رہی ہے اور عوام کے بنیادی مسائل کو حل کرنے کی خاطر حکومت نے اہم اقدامات کئے ہیں ،مہنگائی سے پریشان عوام کو ریلیف دینے کیلئے اشیائے ضروریہ کی گرانی روکنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،اس دوران ریاست کئی محاذوں پر مختلف معرکوں میں بھی برسرپیکار نظر آتی ہے ۔پاکستان میں دہشتگردی کے عفریت سے نجات کیلئے پاک فوج نے آپریشنز تیز کیے ہیں ،دہشتگردوں کے گرد شکنجہ تیار کیا گیا ،ملکی اور غیر ملکی دشمنوں کو گرفت میں لایا جارہا ہے ،عوام کو ڈیجیٹل دہشتگردی سے بھی آگاہ کیا جارہا ہے اور ملک دشمنوں کو ہر موقع پر بے نقاب کرنے کی مہم کامیابی سے چلائی جا رہی ہے،ان حالات میں اگر کوئی سیاسی جماعت ملک کے وسیع تر مفاد کے نام پر مذاکرات کیلئے تیار ہوئی ہے تو اسے بھی پورا موقع دیا جارہا ہے ۔ملک میں مسلسل پھیلتے انتشار اور افتراق سے عوام کو تقسیم کرنے والوں کو شر پھیلانے کے مزید مواقع ملے اور اس طرح ملکی معیشت کو تباہی کے دہانے پہنچانے کی کوشش ہوئی ،اس دوران کئی بار حکومت کی جانب سے اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دی گئی مگر اپوزیشن کسی بھی پیشکش کا مثبت جواب دینے سے قاصر رہی،پھراچانک اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی مذاکرات کیلئے پیشکش کو قبول کرتے ہوئے اس پر پیشرفت دکھائی گئی ،ضد اور ہٹ دھرمی کی جگہ بات چیت نے لے لی ،اس تبدیلی پر سیاسی مبصرین کی جانب سے کئی طرح کے ردعمل سامنے آئے ہیں۔ہر بار بیانیہ تبدیل کرنے والے سیاستدانوں سے کسی خیر کی توقع رکھنا فضول ہے مگر سنجیدہ سیاستدانوں کی توقعات ہیں کہ مذاکرات کامیاب ہوں ،طویل تصادم اور ٹکرائو کی سیاست سے کچھ حاصل بھی نہیں ہوسکا ،بات چیت سے ایک عزت اور احترام کا پہلو نکلا ہے جو تاحال ہر طرح کے مطالبے یا مذاکرات کیلئے کسی طرح کی شرائط سے بھی ماورا کام ہے ۔اس بات کو ہی اگر سمجھ لیں تو تصادم کی سیاست کرنے والے تائب ہو جائیں ،کیونکہ جس کام میں سراسر خواری ہے وہ گھاٹے کا سودا ہی تو ہے جبکہ مذاکرات سیاست کی معراج ہیں ۔خود پاکستان کا وجود مذاکرات اور دلائل کا سراپا اعجاز ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے تصادم ،گھیرائو جلائو اور توڑ پھوڑ کی سیاست کو مسترد کرتے ہوئے مذاکرات اور دلائل کے زور پر خود کو منوایا ،قائد نے پرامن جدوجہد سے پاکستان کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر کر دیا ۔مذاکرات تو دشمن کے ساتھ بھی کئے جائیں تو اسے جنگ سے کہیں بہتر قرار دیا جاتا ہے یہ بات اب تک سمجھ سے بالاتر ہے کہ حب الوطنی کا دعویٰ کرنے والی سیاسی جماعت مذاکرات سے طویل عرصے تک گریزاں کیوں رہی اور پھر مسلسل مذاکرات کے دروازے کھلے رہنے کے باوجود صرف پندرہ دنوں میں کیا افتاد آن پڑی کہ وہی جو مذاکرات کو ہر حال میں مسترد کرتے رہے اب اس پر راضی ہوگئے ۔تمام تر تحفظات کے باوجود یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکراتی کمیٹیوں کے پہلے اجلاس کے دوران
سازگار ماحول میں دونوں اطراف نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔مذاکرات اسی طرح خلوص کیساتھ جاری رہے تو نتائج مثبت رہیں گے ورنہ محض وقت گزارنے یا کچھ مشکلیں ٹالنے کی خاطر جو مذاکرات کو ذریعہ بنانے کا ارادہ رکھیں گے ان کے ہاتھ بھی کچھ نہیں آئے گا ،ریاست قانون کی عملداری سے پیچھے نہیں ہٹے گی اور نہ کسی مجرم کو سیاست کے نام پر کوئی رعایت مل سکے گی ،اب حالات اس موڑ پر آگئے ہیں جہاں جرم اور سیاست کو الگ کیا جارہا ہے ،سیاست میں مذاکرات کی ہر وقت گنجائش اور ضرورت رہی ہے مگر مجرموں کے ساتھ ریاست قانون کے تحت نمٹنے کا طریقہ اختیار کررہی ہے ۔ قومی مجرموں کو کٹہرے میں لانا اور انہیں کیفر کردار تک پہنچانا ہی ریاست کی اولین ذمے داری ہے جس کا مطالبہ عوام اب برسر عام کررہے ہیں ،قوم جانتی ہے کہ پاکستان پر حملہ کرنے والوں کو کسی قسم کی رعایت دینا بذات خود بہت بڑا ظلم ہو گا اور یہ ظلم اس قوم اور ملک کو برباد کرکے رکھ دے گا ،اس لئے قوم ملک کی بربادی کا سبب بننے والے قومی مجرموں کو منطقی انجام تک پہنچانے کی متمنی ہے ،قومی بیانیہ ہی اب پاک فوج کا بیانیہ بن گیا ہے ۔پاک فوج یہ اعلان کررہی ہے کہ 9 مئی افواج پاکستان کا نہیں،عوام کا مقدمہ ہے‘ انصاف کا عمل 9مئی کے اصل گھناؤنے کرداروں اور منصوبہ سازوں کو کیفر کردار تک پہنچانے تک چلے گا،کچھ لوگ اپنی سیاست کے لیے نوجوانوں میں زہر بھرتے ہیں‘اس بیانیے اور زہریلے پرو پیگنڈے کی بنیاد رکھنے والے ہی اصل ماسٹر مائنڈ ہیں۔ان حالات میں اب سب کچھ صاف ہوگیا ہے ،جرم اور سیاست کا فرق واضح ہوگیا ہے۔سیاست میں مذاکرات کی کامیابی کیلئے امید رکھتے ہوئے قومی مجرموں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کا غیر متزلزل عزم ہی اس وقت حقیقی حب الوطنی کا اظہار ہے ۔پاکستان سے محبت کا تقاضا تو یہی ہے کہ اسکے دوستوں کو عزیز رکھا جائے اور دشمنوں کو کچلنے کا جذبہ ہر لمحے زندہ رکھا جائے ۔پاکستان سے محبت کرنے والے ہم وطنوں کی خیر خواہی چاہتے ہیں ،کسی کو

 

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.