اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ آ نے والا وقت الیکٹرک ٹرانسپورٹ کا ہے وہ موٹر سائیکل ہوں کاریں ہوں جیپیں یا پھر بسیں ٹرک اور ٹرالے بہت جلد یہ سب کی سب آ پ کو بجلی کی چارجنگ سے چلتی نظر آئیں گی پیٹرولیم مصنوعات پیدا کرنے والے ممالک جن کا دارومدار اب تک پیٹرول فروخت کر کے چلتا تھا تیزی سے اپنے ممالک کو متبادل ذرائع پر منتقل کر رہے ہیں سعودی عرب حج عمرہ کے ساتھ اپنے ملک میں ٹورزم کی بحالی پر کام کر رہا ہے دبئی اپنی ایئر لائن، ایئرپورٹ کے ساتھ پراپرٹی اور ٹورزم کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ کما رہا ہے اور پٹرولیم مصنوعات کا کاروبار کرنے والے باقی ممالک اپنی آمدنی کے لیے متبادل ذرائع تلاش کرنا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ الیکٹرک وہیکل آنے والے وقت میں ایک بڑا انقلاب لانے والی ہیں
حکومت پنجاب نے الیکٹرک ٹرانسپورٹ پر تیزی سے کام شروع کر دیا ہے بہت جلد آ پ کو لاہور، فیصل آباد ،راولپنڈی، اسلام آباد ملتان ،بہاولپور سمیت تمام بڑے شہروں میں الیکٹرک بسیں چلتی نظر آئیں گی ابتدائی طور پر پنجاب حکومت نے چین سے 27 الیکٹرک بسیں منگوائی ہیں لیکن اس سے پہلے ایک نجی کمپنی لاہور میں کلمہ چوک سے ٹھوکر نیاز بیگ تک الیکٹرک بسوں پر اپنے روٹ کا آغاز کر چکی ہے
جس طرح دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن میں چین ،ملائشیا ،سنگاپور، امریکہ، برطانیہ سمیت بہت سے ممالک اپنی پبلک ٹرانسپورٹ کو الیکٹریکل پر منتقل کر لیا ہے آہستہ آ ہستہ دنیا کے تمام ممالک الیکٹرک ٹرانسپورٹ پر منتقل ہو جائیں گے ہندوستان کی ٹاٹا کمپنی نے گزشتہ سال مقامی سطح پر تیار کردہ بسوں کو سڑکوں پر اتار دیا ہے ان کا یہ قدم بلا شبہ اپنے ملک کے لیے قابل تعریف ہے کیونکہ انہوں نے بجائے کسی دوسرے ملک سے بسیں امپورٹ کرنے کے ٹیکنالوجی حاصل کی اور اپنے ہی ملک میں بسوں کی تیاری شروع کر دی
گزشتہ ماہ جب بیلاروس کے صدر پاکستان تشریف لائے تو اس وقت بھی حکومت پنجاب نے ان سے الیکٹرک بسوں اور چارجنگ اسٹیشنز سے متعلقہ معاہدے کیے تھے
جناب وزیراعلی ہم بھی ہندوستان کی طرح بسیں امپورٹ کرنے کی بجائے مقامی سطح پر کیوں نہیں بنا لیتے آ ئندہ چند روز میں چین سے 27 الیکٹرک بسوں کی پہلی کیپ پاکستان پہنچ رہی ہے اگر آ پ نے ان سے کوئی اس طرح کا معاہدہ نہیں کیا کہ ہم بسیں انہی سے امپورٹ کریں گے تو میرے خیال میں ہمیں اس کے بعد تمام بسیں اپنے ہی ملک میں تیار کر نی چاہیں ہمارے پاس قابل انجینیئرز کی کمی نہیں اور نہ ہی الیکٹرک بسیں کوئی بہت بڑا معمہ ہیں جو حل نہ ہو سکے
پہلی بات تو یہ ہے کہ حکومت پنجاب نے اگر تمام شہروں میں الیکٹرک بسیں چلانی ہیں تو انہیں سینکڑوں کی تعداد میں بسوں کی ضرورت ہوگی اس کے ساتھ اگر پاکستان کے دوسرے صوبوں میں بھی الیکٹرک بسوں کی خواہش پیدا ہو گئی تو ہمیں ہزاروں کی تعداد میں بسوں کی ضرورت ہوگی کیوں نہ حکومت پنجاب خود ہی ایک فیکٹری لگا لے جس میں پنجاب کےاور دوسرے صوبوں کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ باہر ممالک سے بھی
آ رڈر پکڑیں خود اپنی ضرورت بھی پوری کریں اور ایکسپورٹ بھی کریں اس میں انجن تو ہوتا نہیں زیادہ سے زیادہ اگر پاکستانی انجینیئرز موٹر اور لیتھیم بیٹریاں نہیں بنا سکتے تو یہ دو چیزیں چین سے یا بیلاروس سے امپورٹ کر لی جائیں یا پاکستان میں بس سازی بہت بڑے کارخانے موجود ہیں اگر حکومت ان کے ساتھ معاہدہ کر لے تو یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ پاکستان میں چین اور بیلاروس سے آنے والی بسوں سے کم قیمت میں اعلی معیار میں بسیں تیار کر سکتے ہیں
ہماری حکومت کو جلد یا بادیر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے امپورٹ بل کو کم اور ایکسپورٹ بل کو بڑھانے کی کوشش کرنی ہے اس وقت ملک مالی بحران سے نکل کے آ رہا ہے اب یہ حکومت اور حکمرانوں پر فرض ہو چکا ہے کہ وہ ہر راستہ تلاش کریں جس سے حکومتی خزانہ بچایا جا سکے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری کوئی بھی کمپنی مقامی سطح پر آج تک کوئی معیاری کار بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکی لیکن پاکستان میں مقامی کاریگروں نے بڑی بڑی خوبصورت بسیں بنائی ہیں اگر یہ لوگ گیسولین والی بسیں اتنے خوبصورت انٹیریئر اور ایکسٹیریئر کے ساتھ بنا سکتے ہیں تو الیکٹرک بسیں بھی ان کے لیے مشکل نہیں ہوں گی
جناب وزیراعلی برائے کرم اس تجویر کو غور کے لیے ضرور رکھیے گا امید ہے کہ یہ قابل عمل بھی ہوگی اور فائدہ مند بھی اب جس رفتار سے الیکٹرک گاڑیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تمام موٹر ویز ہائی ویز کے ساتھ شہروں میں بھی چارجنگ اسٹیشنز کی ضرورت پڑے گی میری گزارش ہوگی کہ پہلے سے موجود پٹرول اسٹیشنز میں ہی چارجنگ اسٹیشن بنائے جایں تاکہ ہماری مزید زمینیں استعمال نہ ہوں اور اس کے این او سیز بہت سوچ سمجھ کر اور پلاننگ کے بعد جاری کیے جائیں تاکہ ان کا حال سی این جی اسٹیشنز جیسا نہ ہو جس طرح اندھا دھند سی این جی اسٹیشنز کے این او سی جاری ہوئے اسٹیشنز لگ گئے تو پتہ چلا کہ ملک میں گیس ہی نہیں ہے اس لیے چارجنگ اسٹیشنز کو پہلے سے موجود پیٹرول اسٹیشنز میں ہی ضم کیا جائے تاکہ ایک ہی جگہ ڈیزل پٹرول اور بجلی مل جائے چارجنگ اسٹیشنز کے لیے بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے تمام گھریلو صارفین، سرکاری دفاتر ،سکول، کالجز یونیورسٹیوں کو سولر انرجی پر منتقل کر دیں اور ان سے فری ہونے والی بجلی ان چارجنگ اسٹیشن کو دے دیں اگر ایسا نہ کیا گیا تو ڈر ہے کہ کہیں پھر سے بجلی کا شارٹ فال سر نہ اٹھا لے ہم اب ہم کسی بھی مس مینجمنٹ کے متحمل نہیں ہو سکتے