سب اجھانہیں؟

جمع تفریق۔۔ناصر نقوی

2

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حکومتی ایوانوں میں یہ آ واز سنی جا رہی ہے کہ اتحادی حکومت حقیقی جمہوری اور سیاسی انداز میں مشاورت سے درست سمت اختیار کر چکی ہے کچھ فیصلے سخت اور مشکل تھے حکمرانوں نے پھر بھی کیے اور قوم نے درپیش مشکلات میں برداشت کیے کیونکہ حکومتی اقدامات کے اثرات کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی شکل میں نظر بھی آ رہے ہیں امید پر دنیا قائم ہے لہذا پاکستان بھی بحرانوں کا مقابلہ مستقل مزاجی سے کر رہا ہے، حکومتی دعوی ہے کہ مہنگائی میں کمی ہوئی، شرح سود میں ریکارڈ کمی ہوئی، اسٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی، ملک نہ صرف ڈیفالٹ نہیں ہوا بلکہ سری لنکا ،کینیا اور بنگلہ دیش نہیں بنا، شکر الحمدللہ ۔۔پھر بھی سیاسی عدم استحکام میں کسی طرح کی کمی نہیں ہوئی، مقدمات پر مقدمات بنائے جا رہے ہیں تاخیری حربے بھی مسلسل چل رہے ہیں، فرد جرم بھی عائد ہو رہی ہے اور سزا کے بعد عدالتیں ریلیف بھی دے رہی ہیں، پھر بھی بد اعتمادی کی فضا قائم ،اس لیے کہ عدلیہ کی بحرانی کیفیت کا ازالہ 26ویں ترمیم سے بھی نہیں ہو سکا، قومی اسمبلی اور سینٹ نے مخالفت کے باوجود 26 ویں ترمیم منظور کی، آ ئینی بینچ بھی تشکیل پا گئے اکھاڑ پچھاڑ بھی کی گئی پھر بھی اہم ترین ادارے عدالت عظمی میں بے چینی ختم نہیں ہو سکی، 26ویں ترمیم کی دو تہائی اکثریت پوری کرنے کے لیے حکومت نے پیر سیاست حضرت مولانا فضل الرحمن کے آ ستانے پر چکر لگائے، صدر، وزیراعظم اور بلاول بھٹو زرداری نے بھی انہیں جا کر اعتماد میں لیا اور حکیم رانا ثنا اللہ بھی کئی بار وہاں اپنا نسخہ آ زمانے گئے ،مولانا نے تمام تر سیاسی داؤ کھیلے اور صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ترمیم کے ساتھ مدارس بل کمال چالاکی سے پاس کرا لیا، ان کا خیال ہوگا کہ حکومت،، بائی ون گیٹ ون فری،، کے فارمولے پر برداشت کر جائے گی لیکن جب صدر مملکت آ صف علی زرداری نے 26ویں ترمیم پر دستخط کر دیے اور مدارس بل واپس بھیج دیا تو مولانا چونک گئے، انہوں نے پہلے پیار محبت اور بیک ڈور سے حکومت کو سمجھایا لیکن جب بات نہیں بنی تو پھر جمہوری انداز میں سیدھے ہو گئے دھمکی دی کہ اب فیصلہ ایوان میں نہیں، میدان میں ہوگا یہی نہیں حضرت نے یہ بھی کہہ دیا کہ ہم اسلام آ باد کی طرف مارچ کریں گے تو دیکھیں گے کہ ہمیں کون روکتا ہے؟ رد عمل میں حکومت نے علماءو مشائخ کو مشاورت کے نام پر اسلام آ باد میں اکٹھا کر لیا ،جہاں وفاقی وزرا عطا تارڑ اور چوہدری سالک حسین کی موجودگی میں علماء و مشائخ نے نہ صرف بل کی مخالفت کی بلکہ مولانا سے معافی کا مطالبہ بھی کر دیا، ان کا کہنا تھا کہ 2019 میں مدارس کو وزارت تعلیم سے منسلک کرنے کا معاہدہ ہوا اور اس پر تمام اہم علماء کرام اور مشائخ کے دستخط موجود ہیں 2019 سے 2024 تک تمام مدارس معاہدے کی رو سے فعال ہیں اور ان مدارس میں 86400طلبہ کو دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی تعلیم بھی دی جا رہی ہے اور ہزاروں غیر ملکی طلباء بھی فیضیاب ہو رہے ہیں فنڈز بھی مل رہے ہیں, تمام ادارے مختلف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں قانون کے مطابق ان کے بینک اکاؤنٹس کھلے ہوئے ہیں اور سالانہ آ ڈٹ سسٹم بھی چل رہا ہے اس سے پہلے مدارس کو ایک نہیں چار وزارتوں صنعت و تجارت، مذہبی امور، داخلہ اور تعلیم سے اجازت لینی پڑتی تھی اب صرف وزارت تعلیم کی نگرانی میں کام کر رہے ہیں اگر نئے مدارس بل کو منظور کر لیا گیا تو معاملات الجھ جائیں گے وزارت تعلیم کے باعث غیر ملکیوں کو ویزا حاصل کرنے میں بھی بہت آ سانی ہے دلچسپ بات یہ ھے کہ معاھدے کی ضامن اسٹیبلشمنٹ ہے اور یہ معاہدہ جی۔ ایچ۔ کیو میں ہوا تھا اگر اس سے پھرا گیا تو مزید بدعتمادی پیدا ہوگی، صدر مملکت نے اعتراضات قانونی طور پرلگائے ھیں ، اگر دھونس اور دھمکیوں سے مولانا نے اپنی مرضی مسلط کرنے کی کوشش کی تو تمام رجسٹر مدارس کے ہزاروں طلباء علماءو مشائخ کی قیادت میں سڑکوں پر آ جائیں گے، لیکن مولانا نے سخت رد عمل کا اظہار کیا ان کا کہنا ہے کہ عطا تارڑ ہمیں درس نہ دیں حکومت کو بتائیں کہ وہ اپنے وعدے سے مکر رہی ہے ہم نے مشروط حمایت کی اور یہ طے تھا کہ مدارس بل بھی ساتھ ہی منظور کیا جائے گا لیکن صدر نے دستخط نہ کر کے رکاوٹ کھڑی کر دی ہے اس کاروائی سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومت بیرونی دباؤ کا شکار ہے لیکن ہم وفاق المدارس سے مشاورت کر کے آ گے بڑھیں گے، اس کے بغیر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا ،ہم جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں، ہمارے بیک ڈور رابطے بھی ہیں کیونکہ مذاکرات اور افہام و تفہیم سے معاملہ ختم کرنا چاہتے ہیں
اس صورتحال میں سب یہ سوچ رہے تھے کہ آ خر یہ مدارس رجسٹریشن کا تنازعہ ہے کیا؟ دراصل 26ویں ترمیم کے موقع پر حکومت اور جمعیت علمائے اسلام ف کے درمیان طے پایا تھا کہ مدارس کے رجسٹریشن کے سلسلے میں 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کی شق 21 کو تبدیل کر کے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے نام سے ایک نئی شق شامل کی جائے گی جس میں دینی مدارس کی رجسٹریشن متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کریں گے مدارس کے تمام کیمپس کے لیے ایک رجسٹریشن ہوگی سالانہ رپورٹ رجسٹرار کے پاس جمع کرائی جائے گی ہر مدرسے کا آ ڈٹ ایک آ ڈیٹر سے کروا کر جمع کرایا جائے گا ،کوئی مدرسہ ایسا مواد پڑھا اور شائع نہیں کر سکے گا جو شدت پسندی، فرقہ واریت یا مذہبی نفرت کے فروغ کا باعث بنے اور مدارس وزارت صنعت و تجارت کے ذریعے سوسائٹی ایکٹ کے تحت کام کریں گے بظاہر اس میں کوئی قابل اعتراض بات نہیں لیکن جب یہ مدارس سوسائٹی ایکٹ کے تحت کام کریں گے تو ایک مرتبہ پھر مدارس وزارت صنعت و تجارت میں چلے جائیں گے اور ماضی کی مشکلات ایک مرتبہ پھر درد سر بن جائیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.