کہتے ہیں کہ انسان اللہ کی عطا کردہ بےپناہ امانتوں کا امین ہوتا ہے جن میں سے سب سے بڑی اور پہلی نعمت اس کی زندگی ہوتی ہے ۔جسے وہ اللہ کے حکم کے مطابق بسر کرتا ہے ۔اس عارضی زندگی میں ملنے والی بےشمار اور بےحساب نعمتیں اسکے رب کی جانب سے اس زندگی کو بہتر طریق پر گزارنے اور اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے یہ نعمتیں بطور امانت اسے عطا کی جاتی ہیں جن سے وہ اس دنیا کو چھوڑنے سے قبل ان کو حقداروں تک پہنچاتا ہے ا۔وہ دنیا میں خالی ہاتھ آتا ہے اور اپنے فرائض ادا کرکے خالی ہاتھ ہی واپس اپنے رب کے حضور پیش ہو جاتا ہے ۔پلک جھپکتے گزر جانے والی زندگی کسی آزمائش سے کم نہیں ہوتی جس کے دوران کبھی وہ ذات نعمتیں دے کر آزماتی ہے تاکہ ہمارے شکر کو دیکھ سکے اور کبھی واپس لے کر آزماتا ہے تاکہ ہمارا صبر بھی آزماتا ہے ۔یہ شکر اور صبر ہی ہم پر اس کی بےپناہ نعمتوں مین اضافے کا باعث بنتے ہیں ۔یہ نعمتیں اور امانتیں زندگی میں ہی ملتی ہیں اور اسی زندگی میں ہم سے چلی بھی جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ بے شمار امانتیں بے حساب عطا کرتے ہیں ۔زندگی کے اس مختصر سفر میں ان نعمتوں اور امانتوں کا شکرانہ صرف ان کے درست استعمال سے ہی ممکن ہو سکتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ خدا کی نعمتوںکی اس امانت کو کیسے ان کے حق داروں تک پہنچایا جاۓ ؟جی ہاں ! بانٹنے سے نعمتیں اور امانتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ رزق اور علم کی فراخدالانہ تقسیم سےان میں اضافہ ہوتا ا ہے جبکہ کسی لالچی انسان کی خواہشات کا پیالہ اس لیے نہیں بھرتا کہ اس میں ناشکری کے سوراخ ہوتے ہیں ۔اس لیے حکم ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ ہر چیز بانٹ دو ۔ارشاد ربانی ہے کہ “جولوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس دانے جیسی ہے جس سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے بڑھا چڑھا کردۓ اور اللہ تعالیٰ کشادگی والا اور علم والا ہے “(البقرہ ۲۶۱)پھر فرمایا “جب تک تم اپنی پسند یدہ چیز اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ تعالیٰ بخوبی جانتا ہے ” (آل عمران ۹۲ ) ہمارے ابا جی کہا کرتے تھے کہ زندگی میں ہم کسی بھی چیز کے بغیر خالی ہاتھ آتے ہیں پھر ہم ہر چیز کی خواہش کرتے ہیں ان کے حصول کے لیےلڑتے ہیں ۔پھر ہم ہر چیز یہیں چھوڑ کر بغیر کسی چیز کے ہی خالی ہاتھ چلے جاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ کی عطاکردہ زندگی کا سفر گو مختصر مگر بےحد حسین ہوتا ہے ۔بشرط کہ وہ اللہ کے بتاۓ ہوۓ سیدھے راستے پر چلیں جو اس کی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں دنیاوی کامیابی کے ساتھ ساتھ آخرت کی ابدی زندگی میں کامیابی بھی ان کا مقدر بن جاتی ہے ۔اللہ کی نعمتیں اسقدر زیادہ ہوتی ہیں کہ ان کو بانٹے بغیر تو ان کاوزن اٹھانا مشکل ہو جاتا ہے ۔ہم پوری زندگی اللہ کی امانتوں کا وزن اپنے سر پر اٹھاۓ پھرتے ہیں ۔اس وزن میں سے جتنا ہم اللہ کی رضا کے لیے تقسیم کرتے ہیں اس سے ستر گنا امانتوں اور نعمتوں کا وزن ہم پر اور بڑھ جاتا ہے ۔جوں جوں ہم یہ امانتیں ان کے حقداروں تک پہنچا دیتے ہیں ۔توں توں رب تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول بڑھتا چلا جاتا ہے اور امانتوں کی تقسیم کی ذمہ داریاں بھی بڑھتی چلی جاتی ہیں ۔ایک ایماندار قلی کی طرح ان امانتوں کی گٹھڑی سر پر اٹھاۓ ہماری پوری عمر گزر جاتی ہے ۔سر خالی ہو تو دوسری گٹھڑی مل جاتی ہے ۔پھر ہم اپنے وقت مقرر پر یہ گٹھڑی ہمیشہ کے لیے اپنے سر سے اتار کر اپنی آنے والی نسلوں کو سونپ کرخالی ہاتھ اپنے رب کے حضور پیش ہو جاتے ہیں ۔ارشاد ربانی ہے کہ “جو لوگ اپنے مالوںکو رات دن چھپے کھلے خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کے رب تعالیٰ کے پاس اجر ہے اور نہ انہیں خوف ہے نہ غمگینی ۔(البقرۃ۲۴۴) حکم ربانی ہے کہ “لوگ آپ صلیٰ اللہ علیہ وسلم پوچھتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں کیا خرچ کریں ۔فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو درست ہے مگر اس کے حقدار تمہارے ماں باپ ہین اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو بےشک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے(البقرۃ )
اللہ تعالیٰ کی یہ نعمتیں اور امانتیں ہمیں ان کے حقدار یعنی اپنے والدین ،بیوی بچوں ،بہن بھائیوں ،خاندان اور مستحق رشتہ داروں کے علاوہ ہمسایوں ،دوستوں ،عزیزوں ،ہر بیمار ،معذور ،غریب ضرورت مند وں ،یتیموں ،مسکینوں اور لاوارث لوگوں تک پہنچانا ہوتی ہیں ۔ان سب کے متعین کردہ حقوق کی ادائیگی احکامات الہی کے مطابق لازم ہے ۔رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “کھاو پیو ،صدقہ کرو اور اچھا لباس پہنو ،بس تکبر اور اسراف نہیں ہونا چاہیے ” (صیح مسنداحمد ۹۳۳۴)
اگر کسی کے حالات بہت خراب ہیں توکسی نہ کسی اپنے کمزور رشتہ داروں کو دوسروں کے آسرا پر نہ چھوڑو۔وہ قرضہ مانگیں، تو آپ صدقہ سمجھ کر دے دو۔وہ اپنی خوشی میں بلائیں، تو خوشی کے بہانے کچھ دے دو۔انہیں گھر بلاؤ، ان کے بچوں کی نظر اتارنے کے بہانے ہی کچھ دے دو۔کوئی بیمار ہے، تو بیماری کے بہانے ہی مدد کر دو۔ ایسے سفید پوشوں کا ضرور خیال رکھو جو اپنی محرومیوں اور دکھوں کا اظہار بھی نہیں کرسکتے ہیں ۔یاد رہے کہ یہ سب تم کون سا اپنے پاس سے دیتے ہو تمہیں اللہ تعالیٰ نے اسی لیے دیا ہے کہ اپنی ضرورت کے ساتھ ساتھ مخلوق خدا کی ضروریات کا بھی خیال رکھو ۔اللہ نے بےحساب عطا کیا ہے تمہیں گن کر نہیں دیا، تم کون ہوتے ہو اس کی امانت کا حساب کتاب رکھنے والے۔بس خرچ کرو جس قدر ممکن ہوسکے اس کے احکامات کے مطابق اس رب العزت کی راہ میں جس نے یہ سب بےحساب دیا ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ” اور ہمارے دئیے ہوۓ مال میں سے خرچ کرتے ہیں ” (البقرہ ۳ ) یہ کتنا بڑا اعزاز ہے کہ ہماری ڈیوٹی تو اس ذات باری نے دینے اور بانٹنے پر لگا دی ہے اور ہمیں وسیلہ بنا دیا ہے ۔بےشک اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے ۔
حکم ربّانی ہے:’’ کون شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرضِ حسن دے ،تاکہ اللہ تعالیٰ اْسے کئی گنا بڑھاکر واپس کرے، مال کا گھٹانا اور بڑھانا سب اللہ ہی کے اختیار میں ہے ،اور اسی کی طرف تمہیں پلٹ کرجانا ہے ‘‘(سورۃ البقرہ،:۲۴۵)کسی کو واپسی کی ضمانت کے ساتھ کچھ مال دینے کو قرض کہتے ہیں۔مالک حقیقی اس سے قرض مانگ رہا ہے جس کے پاس اس کی امانت ہے اور اس کا فضل و کرم ہے کہ اسے کئی گنا کر کے واپس کرے گا اور ساتھ ہی اجر کریم بھی عنایت کرے گا۔اللہ کو قرض حسن دینے کا مطلب ہے، اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرنا۔یہ مال، جو انسان اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے، اللہ ہی کا دیا ہوا ہے، اس کے باوجود اسے قرض قرار دینا، یہ اللہ کا فضل و احسان ہے کہ وہ اس انفاق پر اسی طرح اجر دے گا جس طرح قرض کی ادائیگی ضروری ہوتی ہے۔ہمیں فلاح انسانیت کے لیے اپنا طرز زندگی بدلنا ہوگا ۔بے جا اسراف اور فضول خرچی سے بچنا ہوگا کیونکہ فضول خرچ کو شیطان کا بھائی قرار دیا گیا اور اپنی توجہ دکھی انسانیت کی خدمت پر مرکوز کرکے ہی دین ودنیامیں کامیابی کا حصول ممکن ہو سکتا ہے ۔آئیں اللہ کی بخشی ہوئی امانتوں کو ان کے صیح حقداروں تک پہنچانے کا عزم کریں ۔یہ فریضہ انفرادی اور اجتماعی طور انجام دینے سے ہی معاشرے کی اصلاح ہو سکتی ہے ۔نچوڑ یہی ہے کہ زندگی میں ہی بس بقدر ضرورت دنیا اپنے ہاتھ میں رکھو اور باقی سارا بوجھ اپنے کاندھوں سے اتار دو اور اپنے اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرو ۔