برصغیر پاک و ہند میں غزل کو ہمیشہ عروج حاصل رہا ہے۔تاہم جب نظم دیار غیر سے اردو زبان میں منتقل ہوئی تو ہمارے شعراء نے اس صنف میں بھی باکمال شاعری کی اور یوں آج نظم نت نئے تجربات سے گذر کر بام عروج تک پہنچ چکی ہے۔پاکستان بننے کے بعد اردو شعراء کی ایک بہت بڑی تعداد نے نظم نگاری کی طرف توجہ کی اور اپنی بے پناہ صلاحیتوں کے بل بوتے پر اس صنف کو اردو دنیا میں متعارف کروایا ۔نظم کے کئی روپ سامنے آئے،جن میں پابند نظم،نظم معراء ،آزاد نظم اور نثری نظم وغیرہ شامل ہیں۔خاص طور پرآزاد نظم کے شعراء کی تو پوری ایک کھیپ تیار ہوئی۔وقت کے ساتھ ساتھ نظم تجربات کی بھٹی سے گذر کر تخلیقی اعتبار سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔آج کے شعراء میں جن شخصیات نے نظم نگاری میں اپنی ایک شناخت قائم کی ،ان میں ایک اہم نام سلمان صدیق کا ہے۔سلمان میرے دیرینہ دوست ہیں۔سلمان کی نظم اپنے اندر ایک جہان رکھتی ہے۔اس کے پاس موضوعات کے انبار ہیں،جنھیں وہ اپنی بے پناہ تخلیقی قوت سے کاغذ پر بکھیرتا چلا جاتا ہے۔سلمان صدیق کا نیا شعری مجموعہ ۔۔۔جو نہ بجھ سکے، اس کی بے مثال اور خوبصورت نظموں پر مشتمل ہے۔اس نے اپنی کتاب کا انتساب اپنے چچا اور اردو ادب کی ایک توانا شخصیت جناب تبسم کاشمیری کے نام کیا ہے۔
سلمان صدیق ایک سنجیدہ فکر شاعر ہے،شاعری ہمیشہ اس کا مسئلہ رہی ہے۔اس لئے دیار غیر میں رہ کر بھی اس نے اپنے اندر کے فنکار کو ژندہ و توانا رکھا ہوا ہے۔سلمان صدیق فکر کی بے انتہا گہرائیوں میں ڈوب کر شاعری کو نظم کے روپ میں ڈھالتا ہے۔بقول افتخار بخاری،،میں اکثر کہتا ہوں کہ شاعری کا اصل مقام و مرتبہ کاغذ پر نظر آتا ہے جب شاعر کی اداکاری اور صدا کاری منہا ہو جاتی ہیں۔میں نے سلمان صدیق کو ہمیشہ کاغذ پر ہی پڑھا ہے اور اس کے فکر وفن کے سحر سے محظوظ ہؤا ہوں ۔اس کی شاعری کی آواز دھیمے سروں سے مرتب ایک ان چھوا راگ ہے۔،،
سلمان صدیق کی شاعری میں موضوعات کی رنگا رنگی ہے،وہ محبتوں میں ہجر و وصال کے ساتھ ساتھ،حقائق کی تلخی،سماجی اور معاشی مسائل ،عصری مسائل اور تصوف کے موضوعات کو بھی اپنی شاعری میں زیر بحث لاتا ہے۔نظم کہتے ہوئے لفظ اس کے غلام ہو جاتے ہیں،جنھیں وہ انگلیوں کے اشارے سے جہاں چاہے ایڈجسٹ کر لیتا ہے۔وہ کتاب کے دیباچے میں اپنی شاعری کے حوالے سے لکھتا ہے،،
میں نے اپنے لفظوں کو نت نئے اور رنگ برنگے داغوں سے سنوارنے کی بھی ہر ممکن سعی میں اس دیوانی نظر کو نہ صرف ہمیشہ نظر کی وسعتوں میں رکھا ہے بلکہ اسے زندگی کی سچائیوں کا بنیادی مقصد بھی سمجھا ہے جس نے مجھے منفی کی گہرائیوں سے بھی جذبوں کی آبیاری کے گروں سے شناسائی دلائی ہے۔،،
جذبوں کی آبیاری سے آشنا سلمان صدیق کی نظمیں قومی و بین الاقوامی تناظر میں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔میں یہاں اس کی نظموں کے عنوانات اور چند سطری حوالہ جات دینے کی بجائے آپ کو ۔۔۔جو نہ بجھ سکے ،کا مطالعہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں۔یہ کتاب میرے اور سلمان صدیق کے عزیز ترین دوست ،عمدہ شاعر اشرف سلیم مرحوم کے ادارے دستاویز مطبوعات کی طرف سے ان کے بیٹے عدنان اشرف نے شائع کی ہے،یوں یہ کتاب میرے لئے دو طرح کی اہمیت کی حامل ہوگئی ہے۔سلمان صدیق نے اس کتاب کی چند نظموں میں بہت سے شاعروں اور ادیبوں کو بھی مخاطب کیا ہے،جو اس کی ادب اور ادیبوں سے لگاؤ کا ایک منفرد انداز ہے۔خاص طور پر ڈاکٹر جاوید انور اور اشرف سلیم سے اس کا مکالمہ مجھے بہت اچھا لگا۔
کتاب میں ڈاکٹر محمد عطا اللہ کا طویل اور شاندار دیباچہ سلمان کے مکمل ادبی سفر کی روداد بیان کرتا ہے۔
میں ۔۔۔جو نہ بجھ سکے ،،کی اشاعت پر سلمان صدیق کو ڈھیروں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔۔۔۔ویل دن پیارے