آٹھ مارچ ،ترک خاتون بمقابلہ پاکستانی خاتون

120

آٹھ مارچ خواتین کے حقوق کا عالمی دن پوری دنیا میں اس مرتبہ بھی زور و شور سے منایا جائے گااور گزر جائے گا۔۔
میں اس دن کی مناسبت سے ترک خاتون اور پاکستانی خاتون کا موازنہ کر رہی تھی کہ
آخر ترک خواتین اتنی آسودہ کیوں اور کیسے ہیں۔… اور ہماری پاکستانی خواتین اس قدر مسائل کا شکار کیوں ہیں۔؟؟؟؟
موازنہ کرنے پر محسوس ہوا کہ ترک خواتین جس معاشرے کا حصہ ہیں وہ بظاہر تو یورپی تہذیب اوڑھے ہوئے ہے لیکن درحقیقت اسلامی اقدار کو تھامے ہوئے ہے ۔
ترک معاشرے میں ماں کی گود سے ہی بیٹے کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ تم عورت سے افضل نہیں ہو بلکہ اس کے ساتھی، معاون اور مددگار ہو۔
پھر اسکول و مدارس میں لڑکے لڑکیوں کو مساوی تعلیم اور اخلاقیات کی تعلیم یکساں دی جاتی ہے۔
میڈیا شعور دیتا ہے۔عورت کی عزت و تکریم کرنا سکھاتا ہے اور ریاست و حکومت عورتوں کو
مردوں کے مساوی حقوق دیتی ہے۔ ترکیہ میں جوائنٹ فیملی سسٹم رائج نہیں۔
شادی کے بعد عورت گھر کی ملکہ ہے جسے ریاست مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے۔
مرد اگر بیوی کو طلاق دے دے تو ریاست اس عورت کو مرد کی جائیداد اور گھر کا مالک بنا دیتی ہے۔
ترک عورت جس قسم کا بھی لباس پہنے،راستوں میں پیدل چلے،
پبلک ٹرانسپورٹ یا اپنی گاڑی میں اکیلے آدھی رات کو سفر کرے مرد انہیں ہراساں نہیں کرتے ۔وہ محفوظ ہیں گھر میں بھی اور باہر بھی۔
یہاں ورکنگ ویمن کو مردوں کے مساوی حقوق اور معاوضہ دیا جاتا ہے۔
جو خواتین گھر گرہستی سنبھالتی ہیں مرد اپنی کمائی کا سارا اختیار انہیں دیتے ہیں۔
شادی شدہ مرد اپنی بیوی تک محدود رہتا ہے اور جو نہیں رہ سکتا وہ علی الاعلان شادی نہیں کرتا۔
یہاں مردوں میں دو رنگیت اور منافقت نہیں ہے۔ترکیہ میں ایک ہی شادی کا رواج ہے ۔
شادی شدہ عورتیں بھی اپنے شوہروں کے ساتھ باوفا رہتی ہیں۔
شوہر کے گھر اور بچوں کی اچھی طرح نگہداشت کرتی ہیں۔
ڈرائیونگ کرکے اپنے بچوں کی اسکول ڈیوٹی خود سر انجام دیتی ہیں ساتھ ساتھ دوپہر کا کھانا اپنے شوہروں کے آفس پہنچاتی ہیں۔
اس کی بہ نسبت پاکستانی خاتون جو شادی کے بعد جوائنٹ فیملی سسٹم میں نوکرانی کی حیثیت اختیار کرتی ہے وہ ساری زندگی اپنے حقوق کی جنگ ہی لڑتی رہ جاتی ہے۔
درحقیقت پاکستانی خاتون کو اسلامی اور قانونی حقوق نہیں ملتے۔
حالانکہ ہماری خواتین آبادی کا نصف ہیں لیکن صرف 9 فیصد خواتین ہی یونیورسٹی کی سطح پر پہنچ پاتی ہیں۔ 21 فیصد خواتین لیبر فورس کا حصہ بنتی ہیں۔
پاکستانی دو کروڑ بچے سکول نہیں جاتے جن میں سے ایک کروڑ 40 لاکھ صرف بچیاں ہیں جو تعلیم سے محروم ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم جینڈر انڈیکس کی رپورٹ 2023 کے مطابق
ملازمت پیشہ خواتین کی تعداد اور فلاح نیز تشدد و استحصال
کے حوالے سے پاکستان 146 ممالک کی لسٹ میں سے 142 ویں نمبر پر ہے جبکہ
بنگلہ دیش جنوبی ایشیائی ممالک میں سب سے بہترین کارکردگی کا حامل ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ معاشرے کو شعور دیا جائے بالخصوص مائیں
اپنی گود میں پلنے والے لڑکوں کو یہ تربیت دیں کہ
انہوں نے بہن، بیوی اور بیٹی کا محافظ بننا ہے اور انہیں خود سے کمتر نہیں بلکہ برابر سمجھنا ہے۔
میڈیا اور تعلیمی اداروں پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ لڑکوں کو شعور دیں۔ ریاست کا بھی فرض ہے کہ کاغذوں پر موجود قوانین پر عمل درامد کروائے اور تحفظ دے۔

تحریر: شبانہ ایاز
shabanaayazpak@gmail.com

08/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-5-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.