اور دنیا بدل گئی؟

جمع تفریق۔۔ ناصر نقوی

4

بابا جی اشفاق احمد کہا کرتے تھے ،،انسان کو کوئی چیز نہیں بدلتی جتنا اس کے دل پہ گزری ہوئی تکلیفیں ،اسے بدل دیتی ہیں اور تکلیفیں بھی وہ جو اس نے تنہا جھیلی ہوتی ہیں، بات یہ یقینی ہے انکار ممکن نہیں لیکن ہم تو ان خوش قس لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے مفادات کے غلام آ دم زادوں کو نہ صرف قدم قدم پر دیکھا بلکہ ہمارے دیکھتے دیکھتے ہی دنیا بدل گئی ،ہم اور ہمارے بڑے جن روایات اور تہذیب و ثقافت پر اتراتے نہیں تھکتے تھے انہیں ہمارے چھوٹوں نے اٹھا کر طاق میں سجا دیا ہم کہتے تھے ،،نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے،، وہ کہتے ہیں دنیا برسوں پہلے چاند پر پہنچ چکی ہے پاکستان اپنی ترقی پذیری اور غربت میں دنیائے اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت بن چکا ہے پھر بھی آ پ کو آ گے کی بجائے پیچھے دیکھنے کی عادت ہے اب تعلیم اور شعبہ جات میں سرگرم ہونا پڑے گا ورنہ سب ،،لا حاصل،، ہو جائے گا آ ج کی تعلیم وہ ہرگز نہیں، جو ،، رٹو طوتے،، پیدا کرتی تھی دنیا بدل چکی ہے ترقی اور خوشحالی کی ضرورت ہے تو دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا ورنہ ،،گھر کے رہیں گے نہ گھاٹ کے،، ہم نے تو یہ بھی پڑھا تھا کہ اکبر الہ آ بادی کہتے تھے،، ہم ایسی سب کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں ، کہ جن پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں،، آ ج کتاب ماضی کی طرح قابل قبول نہیں ہے پھر بھی بچوں کا رویہ وہی ہے انہیں کون بتائے کہ 1947 کے آ زادی سے اب تک تمہارے بڑوں نے کتنی تکلیفیں برداشت کیں، آ گ وخون کے دریا عبور کیے اور اپنی خواہشوں و ضروریات کو ان کے مستقبل کے لیے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا انہیں کون بتائے کہ کتنی تکالیف سانجھی تھی اور کتنی تنہا سہنی پڑیں؟ انہیں کیسے یاد کرائیں کہ جس آ زاد فضا میں تم سانس لے رہے ہو اس کے لیے کتنی جانوں کا نزرانہ دیا گیا، کون بتائے کہ تمہارے آ ج کے معیار تک پہنچنے کے لیے تین نسلوں نے شب و روز سر دھڑ کی بازی لگائی پھر آ ج تم سر اٹھا کر چلنے کے قابل ہوئے، پجارو ،لینڈ کروزر اورنج ٹرین ،میٹرو بس اور باقی سہولیات کا بوجھ ہر پاکستانی کے کندھے پر ہے یہ غلط فہمی ہے کہ اشرافیہ، بیوروکریسی، صنعت کاروں اور جاگیرداروں کی کرامات سے ملک نے ترقی کی ہے ہم زیرو سے ہیرو بنیں تو حکمرانوں اور منصوبہ بندی کی منفی حکمت عملی سے آ ج دیس کا ہر بچہ پیدائشی مقروض ہے اس میں جنرل محمد ایوب خان، صدر ضیاء الحق اور زبردستی کے صدر پرویز مشرف جہاں تینوں ڈکٹیٹرز کی کرم نوازی ہے وہاں ہمارے سیاست دانوں نے بھی جمہوریت کے جلوے میں بہت کچھ کیا ،جسے قوم معاشی بحران اور سیاسی عدم استحکام کی صورت میں بھگت رہی ہے حقیقت یہی ہے کہ دنیا بدل گئی ہے لیکن ہم ابھی تک اپنے انداز بدلنے کو تیار نہیں، نئی نسل ہی نہیں پرانے لوگ بھی اپنی روایات اور تہذیب و ثقافت سے دور موبائل کی غلامی میں جا چکے ہیں، خواہشات، مفادات اپنی جگہ سوشل میڈیا نے غیر مصدقہ معلومات سے ہی جینا حرام کر دیا، ایجادات نے انسان کو آ سانیوں کے ساتھ ساتھ پریشانیاں بھی بانٹ دیں ،اب اس موبائل نے جہاں دنیا کو آ پ کے ہاتھ میں لا کھڑا کیا ہے، وہاں خط ،عید کارڈ ،گھڑی کو دور پھینک دیا ہے کہتے ہیں، صدقہ بلائیں ٹالتا ہے اس لیے ہر چیز کا صدقہ ہوتا ہے لیکن موبائل کی بلاؤں سے آ پ محفوظ نہیں رہ سکتے اس کے لیے ذوق اور ظرف کا صدقہ دینا ہوگا جو کم ظرف لوگوں کو نظر انداز کر کے دیا جا سکتا ہے لیکن دنیا بدل گئی ہے لہذا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ صدقہ نکالتے نکالتے آ پ کم ظرف قرار پا جائیں ہم اور آ پ اپنی زندگی جینا چاہتے ہیں پھر بھی زندگی ایک انجان کتاب جیسی ہے کوئی نہیں جانتا کہ اگلے صفحے پر کیا لکھا ہے نسخہ کیمیا قر آ ن مجید کہتا ہے کہ مکڑی کے جالے سے بھی کمزور ہیں تمہارے دنیا کے یہ سہارے، پھر بھی آ دم زادے نہ جانے کس گھمنڈ میں ہیں کہ پل کی خبر نہ ہوتے ہوئے بھی سو برس کے سامان کے لیے فکرمند ہیں
دنیا بدل گئی، یار دوست ہمجولی بچھڑ چکے ہیں کچھ تو اس فانی زندگی سے بحکم خدا منہ موڑ چکے ہیں آ پ جس عمر میں بھی ہیں ذرا گردن موڑ کر ماضی میں جھانکنے کی کوشش کریں تمام منظر بدلے دکھائی دیں گے ،بڑے رہے نہیں، چھوٹے بڑے ہو گئے، جن کے چہروں کو دیکھ کر خوشی ہوتی تھی وہ خود زندگی کے جھمیلوں میں کھو گئے یا پھر ہم نے ایک دوسرے سے آ گے بڑھتے ہوئے انہیں نظر انداز کر دیا ،اب ڈھونڈتے ہیں تو ملتے نہیں، جو ہر موڑ پر ملتے ہیں ان سے ملنا نہیں چاہتے، اس لیے کہ دنیا بدل گئی ہے، تقاضے بدل گئے ہیں، انداز تبدیل ہو چکے ہیں، جو پیچھے رہ گئے، وہ آ گے بڑھتے ہوئے جائز ناجائز کا معیار بھول گئے ہیں، جن کی قسمت نے یاوری کی ان کی الٹی بھی سیدھی ہو گئی، وہ کسی کو ہم پلہ تسلیم نہیں کرتے، اسی لیے تو دنیا کو ایک امتحان گاہ بھی کہا گیا ہے، ہر روز نیا امتحان بلکہ سوالات بھی ایسے ہیں کہ جیسے،، آ ؤٹ آ ف کورس ،،کوئی کسی کا ہاتھ پکڑنے کا روادار نہیں، اس لیے کہ ماضی کی روایات اور بھائی چارہ ،،اولڈ کورس،، قرار پا چکا ہے اور نیا کورس ہم جیسوں کے لیے قابل قبول نہیں، پھر بھی کچھ کیا نہیں جا سکتا کیونکہ پہلے تجربہ کار کی بڑی قدر و قیمت تھی اب دنیا بدل گئی تو سب ہی سینیئرز ہیں ہر کسی کے ہاتھ میں موبائل لہذا،، گوگل اور وکی پیڈیا،، تک ان کی پہنچ ہے اس لیے ان کے سامنے کوئی کیا بیچتا ہے، کسی کی

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.