حقیقی دہشتگردی کا خطرہ

4

روداد خیال ۔۔۔۔۔صفدر علی خاں

دنیا میں پائیدار امن سے ہی ترقی کے راستے نکلتے ہیں ،خانہ جنگی کے شکار ملکوں کے عوام صدیاں پیچھے رہ جاتے ہیں ۔معاشرے میں پھیلتی بے امنی تضادات سے جنم لیتی ہے اور تضادات کی انتہائی شکل ٹکرائو کہلاتی ہے ۔تصادم اسی صورت میں ہوتے ہیں جب کسی بات پر اتفاق نہ ہوسکے ۔مثال کے طور پر سامنے اگر گلاس رکھا ہے تو دو مختلف نظریات رکھنے والے اسے گلاس ہی کہیں گے اس میں کوئی دو آراء نہیں ہونگی ،اسکی بنیادی وجہ دونوں حاضر افراد کا علم اور یقین ہے ۔اگر کسی ایسی شے پر بحث ہو جو ظاہر نہیں اور ایک فرد کے احاطہ علم سے باہر ہے تو اس کے بارے میں ضرور اختلاف رائے ہوسکتا ہے ۔آج مگر اس جدید رابطے کی دنیا میں کوئی شے بھی کسی سے مخفی نہیں ،بس ہر کسی کے پرکھنے کااپنا اپنا انداز ہے ۔کچھ لوگ بادلوں کے وقتی روشنی پر حاوی ہوجانے کے عمل کو رات کی تاریکی سمجھ لیتے ہیں تو کئی اہل دانش اسکی حقیقت سے واقف ہونے پر اول الذکر رائے سے اختلاف کربیٹھتے ہیں ،یہ اختلاف اگر رائے کی حد تک رہے تو کوئی خرابی نہیں مگر جب کوئی اپنے نظریہ کو دوسرے پر مسلط کرنے کی کوشش کرے گا تو پھر تصادم کی صورت نکلے گی ۔اس میں خطرناک حالات تب سامنے آتے ہیں جب کوئی غیر مقبول سچ پر مقبول عام جھوٹ کو مسلط کرنے لگتا ہے ۔اس وقت پاکستانی معاشرے میں ایسا ہی ہورہا ہے ۔ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلانے والے یہی حربہ استعمال کررہے ہیں ،غیرمقبول سچ کو غیر معتبر بنانے کی کوشش میں ہم ملک کا آدھا حصہ گنوا بیٹھے ہیں ۔اسکے باوجود اکثر مفاد پرست سیاستدانوں کی ہٹ دھرمی قائم رہتی ہے اور ماضی کی غلطیوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے کچھ تو ان پر نازاں دکھائی دیتے ہیں ۔عوام کو گمراہ کرنے کیلئے سوشل میڈیا پر مقبول عام جھوٹ کو اس تواتر کے ساتھ سنوار کر پیش کیا گیا ہے کہ سچائی پر قائم رہنے والے لوگ خود ششدر رہ گئے ،اہل نظر نے اس واردات کو “ڈیجیٹل دہشتگردی”قرار دیکر اس کا علاج بھی تجویز کیا مگر ریاست تاحال ان سے مکمل طور پر چھٹکارہ پانے میں ناکام رہی ہے ۔ڈیجیٹل دہشتگردی کی واردات میں حقائق سے بے خبر نوجوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ذہنوں میں زہر بھرنے کی روایت اگرچہ بہت کہنہ ہے مگر اس بار انہیں ہتھیار سوشل میڈیا کی شکل میں جدید ترین ملے ہیں ،کل ہی ایک برخوردار بتارہے تھے کہ کسی کی بھی آواز کی ہوبہو نقل اور فلٹر تصاویر سمیت بہت ساری جعلسازیاں کرنے والی آرٹیفیشل ایپ “اے آئی ” .سے کچھ بھی ناممکن نہیں رہا۔یعنی جھوٹ کو ایسا ملبوس مل گیا ہے جس سے سچ کی توقیر ہی جاتی رہی ۔ان حالات میں سچ کو نامعتبر بنانے کی سازش کو عملی شکل دینا انتہائی سہل بنادیا گیا ہے ۔پی ٹی آئی کے 24نومبر کو احتجاج کے دوران گڑ بڑ کے پروگرام کو جب ریاست نے روکنے کا پکا پلان بنالیا تو پھر احتجاج کی کال دینے والوں نے سوشل میڈیا پر ریاستی اداروں کے خلاف شرمناک مہم چلا دی ۔اس پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا ۔فورسزکے شہدا ء اور بہادر پولیس آفیسرز کی تصاویر کو دہشت گردوں کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا گیا ۔
تحریک انصاف کی اس کارروائی کو بعض حلقے انتہاپسند اور دہشت گردوں کے حامی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جبکہ حکومت اور ریاستی اداروں سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ وہ اس خطرناک صورتحال کے خلاف کیوں نہیں اقدامات کر رہے۔اس صورتحال میں سوشل میڈیا پر ڈیجیٹل دہشت گردی اور شرپسندی کے پھیلاؤ کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت زور پکڑ رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں گڑ بڑ کرنے والوں کو روکنے کی خاطر سیکیورٹی فورسز تعینات ہیں اور ملک کے عوام کی سلامتی کو یقینی بنانا انکی اولین ذمے داری ہے، اس پر دہشتگردوں کو ہیرو قرار دیتے ہوئے قوم کے سچے رکھوالوں کی برسر عام توہین کا مقصد ملک میں بے امنی کو رواج دینے کے سوا کچھ نہیں ۔سوشل میڈیا کے ہتھیار سے عوام کو گمراہ کرنے والے ڈیجیٹل دہشتگردوں کے جھوٹ کو اب روکنا ریاست کی سب سے بڑی ذمے داری ہے ۔اب بھی اگر ان تخریب کاروں کو کٹہرے میں نہ لایا گیا تو ملک میں حقیقی دہشتگردی کے خطرات بڑھتے چلے جائیں گے ۔قوم کو تقسیم کرکے آپس میں لڑانے والوں کی اس ناپاک سازش کو نہ روکا گیا تو ملک میں خانہ جنگی کی صورت سامنے لائی جاسکے گی ،ڈہجیٹل دہشتگردوں کے جھوٹ کو بے نقاب کرنا اب ہر محب وطن پاکستانی کی بھی ذمے داری ہے ۔پاکستان اس وقت انتہائی نازک موڑ پر ہے ،ملکی معیشت کو برباد کرنے والے ہی اب دشمنوں سے ہاتھ ملا کر قومی یکجہتی کو پارہ پارہ کررہے ہیں ۔قوم کو یکجان رکھنے کیلئے ریاستی اداروں کے صائب کردار سے امن کے راستے ضرور ہموار ہونگے ،کھلے دشمن سے برسر پیکار فورسز کو فتح بھی ضرور نصیب ہوگی مگر نوجوانوں کے ذہنوں کو ڈیجٹل دہشتگردی سے بچانے کا بندوبست کرنا ازحد ضروری ہے جس کے لئے اب سیاست کو جرم سے الگ کرنا پڑے گا ،آج اگر قومی املاک پر حملوں کیلئے نوجوانوں کو انتشار پر آمادہ کرنے والے عناصر کے خلاف ریاست نے پوری قوت سے حرکت نہ کی تو پھر تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.