بسم اللہ کرو

2

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق
وقت بدلتے کوئی دیر نہیں لگتی ہے۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں فلمیں زیادہ بنتی تھیں اور دیکھنے والے کم پڑ جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ایک ٹکٹ میں دو دوشو بھی دکھائے جاتے تھے اور مثل مشہور تھی ایک ٹکٹ میں دو دو مزے۔ ہم شروع سے ہی مزے کے پیچھے پڑے ہوئے تھے اور ہمارے بزرگ ہمارے اس پہلو سے بخوبی آگاہ تھے۔ اسی لئے سارے والدین اپنے بچوں کے فلمیں دیکھنے کے بہت ہی خلاف تھے۔ وہ خود تو کبھی کبھی فلم دیکھ سکتے تھے لیکن بچوں پر فلم دیکھنے کی مکمل پابندی ہوتی تھی۔ گھر کے دروازے شام ہوتے ہی بند کردیئے جاتے تھے بلکہ بچوں کی حرکات و سکنات پر بعد میں بھی نظر رکھی جاتی تھی۔ اگر کوئی دیوانہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر یہ ساری حدیں عبور کرکے کسی طرح سینما پہنچ جاتا اور یہ خبر اس کے گھر تک پہنچ جاتی تو اس کی خیر نہیں ہوتی تھی۔ ان ساری باتوں کے باوجود فلموں کا ایک دور تھا۔ دن کے بارہ بجے بھی ایک شو چلایا جاتا تھا تاکہ فلم کے شائقین بچے سکول سے بھاگ کر فلم دیکھ کر اپنا شوق پورا کرلیں۔ دیہاتی بچے جب کالج میں داخل ہوتے اور ان کا قیام ہوسٹل میں ہوتا پھر تو ان کے وارے نیارے ہوجاتے۔ ہوسٹل وارڈن کا خوف اپنی جگہ لیکن وہ چوکیدار کی مٹھی گرم کرکے رات کو فلم کے تینوں شو دیکھتے اور پھر اگلے کئی کئی دن فلموں پر سیر حاصل گفتگو ہوتی۔ فلمیں بھی مختلف طرز کی ہوتی تھیں۔ اردو پنجابی زبان میں بنائی جانے والی ان فلموں کے مختلف موضوعات۔ معاشی،معاشرتی اور سیاسی موضوعات پر کمال فلمیں بنیں۔ چار پانچ اداکار ایک فلم میں کاسٹ اور پھر ایک شاندار فلم۔ زبردست کہانی، کمال موسیقی، خوبصورت اداکاری، اچھوتا موضوع، طنزومزاح اور آخر پر ایک پیغام اور اس پیغام کو مدتوں یاد رکھا جاتا تھا۔ شائقین کی بھی ورائٹی تھی۔ دوران شو کئی فلم کو دیکھ کر رو رہے ہوتے تھے۔ کچھ خوب ہنستے تھے۔ گنگنانے والوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہوتی تھی۔ بڑھکیں، بھبکیاں اور شور شرابہ کرنے والے بھی کم نہ ہوتے تھے۔ سٹوری کے بدلتے مناظر کے مطابق ہر ایک کی طبیعت کی کیفیت بدل جاتی تھی۔ سارا سارا دن محنت مزدوری کرنے والوں کے لئے حسین موقعہ۔ جو کچھ لمحے اپنے مسئلے مسائل بھول کر خوب انجوائے کرتے تھے۔ پنجابی زبان میں بنائی جانے والی فلمیں تو خصوصی طور پر پینڈو کی توجہ کا مرکز تھیں۔ وہ اس لئے میلوں کا سفر طے کر کے رات کو شہر جاتا تھا تاکہ پنجابی فلم دیکھے اور وہ اس لئے فلم دیکھنا ضروری سمجھتا تھا کہ ان فلموں میں پنجاب کے دیہاتوں کا کلچر دکھایا جاتا تھا اور اس کلچر پر پنجابی کو فخر تھا۔ سلطان راہی نے مدتوں پنجابی فلم کی دنیا پر راج کیا ابھی تو یہ سلسلہ جاری تھا کہ کسی بدبخت ڈاکو نے ان کی زندگی کا دیا بجھا دیا۔ یہ ایک تاریخ ہے اور تاریخ کے ان کرداروں کا ذکر نہ کرنا کہانی کو نامکمل چھوڑنے والی بات ہے۔ انسان دنیا میں جوڑی کی شکل میں آتا ہے اور پھر مرد وزن اپنے اپنے ساتھی کی تلاش میں پھرتے پھراتے کسی ایک موڑ پر مل ہی جاتے ہیں۔ شاید یہی زندگی کی فلم ہےنامور اداکاروں کی بھی جوڑی مشہور ہو جاتی تھی۔ جن میں صبیحہ سنتوش، محمد علی زیبا، ندیم شبنم، رانی وحید مراد، بابرہ شریف شاہد، سدھیر آسیہ، سلطان راہی انجمن، فردوس اعجاز وغیرہ وغیرہ ویسے تو نشو،کویتا،سنگیتا، عالیہ اور اس طرح کے ون پونے نام۔ ان اداکاراوں کے بھی بڑے بڑے نام اور کام تھے اور ان کی بھی مختلف اداکاروں کے ساتھ بڑی مشہور فلمیں دیکھنے کو ملیں۔ طنزومزاح کی بھی ایک دنیا تھی۔ منورظریف، رنگیلا، علی اعجاز، ننھا، البیلا اور بہت سارے۔ شائقین کو خوب ہنساتے تھے۔ بعض تو پہلے ہنساتے تھے اور پھر رونے پر بھی مجبور کردیتے تھے۔ شاید رونا اور ہنسنا ہی زندگی ہے(غم ہے یا خوشی ہے تو ۔۔۔میری زندگی ہے تو) یا پھر کسی نے کیا خوب گانا گایا( پیار دی کہانی لوکو کتھے آکے مک گئی۔۔ہاسیاں توں شروع ہوئی تے ہنجواں تے مک گئی) کاش زندگی کے فیبرک میں آنسو نام کی چیز نہ ہوتی تو زندگی سے شاید ہی کوئی اور چیز خوبصورت ہوتی۔ اب بھی زندگی زندگی ہے اور زندگی کی خوبصورتی اور رعنائی بے مثل ہے۔ متذکرہ بالا فنکاروں کے علاوہ ولن، مہمان اداکار، سائیڈ ہیرو اور ہیروئن بھی ہوتے تھے جو اپنا اپنا کردار ادا کرکے سرخرو ہوتے تھے۔ ان کے بھی ناموں کی طویل فہرست ہے۔ یہ تو تھی پاکستانی فلموں کی کہانی جس کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی حتی المقدور کوشش کی گئی ہے۔ ایک ایسا بھی وقت گزرا ہے جب ہم پر انڈین فلمیں دیکھنے کا بھوت سوار ہو گیا اور ہمارے سیانے ہمیں مذکورہ فلموں سے اس لئے بچاتے تھے کہ کہیں ہم اخلاقی گراوٹ کا شکار نہ ہوجائیں۔ پابندیاں اور وی سی آر کا کاروبار۔ راقم الحروف نے بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کچھ یوں یہ شوق پورا کیا کہ ہم چار پانچ عشاق انڈین فلم کو ایک کمرے میں وی سی آر کے ذریعے سے فلم”بیتاب” لگا کر دے دی گئی اور باہر سے کمرے کو مقفل کردیا گیا تاکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دھوکہ دیا جا سکے۔ کچھ دیر مجھے فلم نے بڑا مزہ دیا اور پھر مجھ پر ریڈ ہونے کا خوف طاری ہو گیا۔ نامعلوم کیا کیا اور کدھر کدھر سےکون کون سے خیالات ذہن میں داخل ہو گئے اور پھر ہمارا پہلے تو گلا خشک ہوا پھر پیشاب خشک ہو گیا اور دل میں آیا کہ اس سے تو بہتر تھا گھر میں ہی ٹی وی پر شازیہ خشک کا گانا سن کر شوق پورا کر لیتے۔ شوق شوق ہوتا ہے۔ ع۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ اسیں وی کیہڑے کماں وچ پئے گئے آں
پھر وہ دور آیا جب ڈرامے اور ان کی زبان بھی “اف اللہ” اور انڈین فلمیں۔ ہمیں جن چیزوں سے ہمارے آباو اجداد بچانے کی کوشش کرتے رہے ان کوششوں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.