کیا ہم ہار چکے ہیں؟
تحریر: خالد غورغشتی
محترم قارئین کیوں نہ آج ہم اپنی شکستِ فاش کا اعلان کریں کیونکہ بلاشبہ ہم ہار چکے ہیں، نفرتوں، رسموں اور آپسی چپقلشوں سے. ہمارے کتنے رشتے دار، محلے دار بجلی کے بلوں، دُکانوں، گھروں دفتروں کے کرایوں کے ہاتھوں تھک ہار کر اپاہج ہو چکے ہیں۔ دن رات محنت مزدوری کرنے کے باوجود ان کی زندگی کا پہیا جام ہو چکا ہے۔ آج ہماری نفرتیں جیت چکی ہیں اور محبتیں ہار چکی ہیں، آج رسمیں سماجی فرض کا درجہ اختیار کر چکی ہیں۔ ہمارے سرمایہ دار چالیس چالیس لاکھ ولیمے اور برسیوں پر لُٹانے کے لیے تو ہر دم تیار بیٹھے ہیں لیکن گھروں، دُکانوں اور دفتروں کے کرایے کم کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے اردگرد لوگوں کی حالت کیسی ہے؟ وہ تو غمی خوشی کی تقریبات میں بھی کرایہ مانگ کر شرکت کرتے ہیں، یہاں تو حالت یہ ہے کہ ایک شادی یا غمی کی تقریب نمٹاتے نمٹاتے غریب کی ساری عمر کی جمع پونجی خرچ ہو جاتی ہے اور وہ اُدھار لے کر سالوں تک محنت مزدوری کر کے بھی قرضہ نہیں اتار پاتا ہے۔
اگر مسلمان ہو نا تو آؤ عہد کرتے ہیں اگر اللہ نے صاحب ثروت کر رکھا ہے تو لوگوں سے لینے کی بجائے ان کو دینے کا مزاج پیدا کیجیے، یہی سنت نبوی اور کارِ خیر ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور و تدبر کہ آپ کے پاس یورپی ویزے کُھلنے سے پہلے کیا کیا سہولیات تھیں۔ کتنے موٹر سائیکل، گاڑیاں، کوٹھیاں اور مال و دولت تھا؟
تیس چالیس سال میں اگر آپ یورپی پیسے کی بدولت کپڑے پہننے کے قابل ہو ہی گئے ہیں تو دوسروں کے کپڑے تو نہ اتاریے اور یاد کیجیے جب آپ کے بڑے اور آپ ٹوائیلٹ جیسی نعمت سے بھی محروم ہو کر دوسروں کے کھیتوں کے محتاج ہوا کرتے تھے۔
راتوں رات امیر کبیر ہونے کے بعد آپ کی یہ روش عجیب ہے کہ تمھارے پاس کیا ہے؟ ہم نے کیا کیا بنا لیا ہے؟ ارے بھائی آپ نے ملک میں رہ کر تھوڑا ہی سب کچھ بنایا ہے، اس میں پاؤنڈز ڈالرز نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کئی رشتے دار ایسے تھے، جنھیں ہم نوازتے تو آج وہ یُوں بھکاریوں کی طرح بے یار و مدد گار نہ پھر رہے ہوتے۔ یہاں تو ہر کام کی الٹی ہی گنگا بہتی ہے. اس کو چھٹی ہی نہیں ملتی جو سارا دن کام کرے اور نکمے یہاں ہر طرف راج کیا کرتے ہیں۔
ہم جن کاموں میں ایصال ثواب کے طور پر پیسے لگا رہے ہوتے ہیں، وہ لوگ تو خود امیر کبیر ہوتے ہیں اکثر دینی ادارے، فلاحی ادارے اور یتیموں کی کفالت کے ادارے پرباش ہوتے ہیں اُنھیں دینے کی بجائے رشتہ داروں کو نواز کر ان کے کاروبار میں معاونت کر کے ہم کم از کم ایک گھر تو ٹھیک کر سکتے تھے، وہ بھی تو ہم نے اپنی حسد و بُغض کے باعث نہ کیا۔
پانچ ہزاروں بندوں کو دو دو کلو آٹا دینے کی بجائے اگر ہم چند افراد کو نواز کر کاروباری
بنا دیں تو کئی سماجی مسائل کا خاتمہ ممکن ہو سکتا ہے۔ جن فلاحی اداروں کو ہم دیتے ہیں ان کے اردگرد اکثر بھکاریوں کی کثرت کیوں ہوتی ہے؟ اس لیے کسی کی عزت نفس مجروح نہ کیجیے، کسی بھی ادارے کو دینے کی بجائے رشتے دار کو دے کر ان کا مستقبل تابناک بنائیے، اللہ آپ کی نسلوں سے بھی فاقوں کو مٹا دے گا۔
محترم بھائیوں جہاں ہر شخص کی آستین میں سانپ چھپے ہوں، وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا، ہمیں فراخ دلی سے یہ ماننا ہوگا کہ ہماری اکثر دشمنیاں جائیداد یا غمی خوشی کی تقریبات کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ اگر آپ نے اسلام کی وجہ سے کی ہوتیں تو سات بار مرحبا، مگر افسوس یہ رنجشیں ان رسومات کی وجہ سے ہوئی ہیں جن کا اسلام سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ کہاں لکھا ہے کہ مہندی کی تقریب کا سارا خرچ آپ کا چچا کرے گا، کہاں لکھا ہے کہ ولیمے اور جہیز کا سارا خرچ آپ کا ماموں جان کرے گا؟ کہاں لکھا ہے کہ برسی، ختم اور ولیمے میں رسمی کے طور پر آپ نے دس ہزار دیے تو دوسرا بھی اتنا ہی دے گا۔ ان ہی ادلوں بدلوں کی وجہ سے آج رشتے زر کے ہو کر رہ گئے ہیں۔ آج رشتوں سے تقدس اس لیے مٹ گیا کہ ہم نے ہر معاملے میں مفاد کو عزیز کر لیا ہے۔
جن لوگوں کو ہم نے فلاحِ انسانیت یا دین کے نام پر دیا وہ سائیکل خریدنے کے قابل نہ تھے۔ وہ کیسے پلازوں کوٹھیوں اور گاڑیوں کے مالک بن گئے کبھی غور و فکر کیا ہے؟
ہم نے ایک دوسرے پر بُہت ظلم و ستم کر ڈالے ہیں؛ پس ہر شام کی سویر ضرور ہوتی ہے، سُننے میں آ رہا ہے جن پاؤنڈز و ڈالرز کی وجہ سے ہمیں بڑا ناز تھا بہت جلد ان کی اجارہ داری دنیا سے ختم ہونے والی ہے۔ دیکھیے کب، کون، کہاں گرتا ہے؟ دنیا بڑی ظالم ہے یہ اپنے بدلے ضرور لیا کرتی ہے۔ لیجیے جلد عیاشیوں اور ڈالروں میں پلنے والا کا حساب ہونے کو ہے پھر سے دنیا گول چکروں میں گُھوم کر اپنی اصل حالت میں آنے کو ہے۔